Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید

Tuesday, April 14, 2009

پروفیسر سحر انصاری - چند تاثرات


پروفیسر سحر انصاری



چند تأ ثر ا ت


اردو دنیا روز بروز وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ اس میں بسنے والے اپنی اپنی سکت اور استعداد کے مطابق اپنی تخلیقی شناخت بھی قائم کرتے جارہے ہیں۔


ایسے ہی تخلیقی اذہان میں منیف اشعر بھی شامل ہیں۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ برّصغیر سے باہر ہی گزرا ہے۔ اور انہوں نے شعروسخن سے اپنا تعلّق کبھی منقطع نہیں ہونے دیا۔


منیف اشعر کے مجموعہِ "تلخ و شیریں" کا مطالعہ کرکے اندازہ ہوا کہ یہ محض دو متضاد لفظ ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کی زندگی بھی بعض دیگر حسّاس انسانوں کی طرح تلخ و شیریں سے عبارت ہے۔ اس پر مُستزاد ان کا حوصلہ ہے، جو بلا شُبہ دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔


اکثر یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کسی کا کلام کیوں پڑھا یا سنا جائے۔ ممکن ہے اس کا جواب کئی پہلوؤں سے دیا جاسکے۔ لیکن، میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ شعروسخن میں زندگی کے تجربوں کی سچّائی اگر سلیقہِ سے بیان کردی گئی ہو تو ایسی شاعری ایک عام آدمی کا ذہنی سہارا ہی بن سکتی ہے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ منیف اشعر کا کلام اس رُخ کی گواہی دیتا ہے۔


مُنیف اشعر کی شاعری میں تنوّع ہے۔ وہ اسلوب اور موضوع کے طے شدہ سانچوں پر انحصار نہیں کرتے۔ جہاں ان کے کلام میں بعض روایتی انداز کے اشعار اور نظمیں ہیں، وہیں "قلم جو بازار میں نہیں ہے"، "بدلہِ کی بھاؤنا"، اور " حاکمِ شہر کچھ تو کہہ" جیسی نظمیں اور اس انداز کےتازہ اشعاربھِی ہیں: ۔۔


گھر آپ کا بھی دور نہیں رہ گیا ہے اب

اتنا وسیع حلقۂ آتش نہ کیجیے


تیرے تمام رنگ نکھاروں گا ایک بار

ہیرا سمجھ کے سنگ تراشوں گا ایک بار


یہ وہی دل ہے جسے اک انجمن کہتے تھے آپ

اس کھنڈر کو آج ویرانہ تو کہتے جائیے


منیف اشعرؔ کا کلام ان کے لب و لہجہ کا تعیّن کررہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ منیف اشعر کو اپنی غزل زیادہ پسند ہے یا نظم۔ مجھے ذاتی طور پر منیف اشعر کی نظموں نے زیادہ متأثر کیا ہے۔ اگروہ اس طرف مزید توجّہ دیں تو اردو کے بعض قابلِ ذکر نظم نگاروں میں اُن کا نام بھی نُمایاں ہوسکتا ہے۔


مُجھے یقین ہے کہ اُن کا شعری مجموعہ، "تلخ و شیریں" ادبی دنیا میں مقبول ہوگا۔


* * *






No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for more Justuju Projects