نظم
اے صنم تیرے بغیر
اے گلِ تر جب خزاں بدبخت نے |
تیرے دلکش رنگ ہائے حسن سے |
اک جلن محسوس کی اور سازشِ شب خون کی |
جب ترے ہونٹوں کا رس |
یک بہ یک گھٹنے لگا اور پپڑیاں جمنے لگیں |
جب ترے گالوں پہ سُرخی کی جگہ |
پیلے پیلے سائے لہرانے لگے |
جب تری مسحور کن مخمور آنکھوں کے تلے |
سیاہی مائل دو بڑے حلقے نظر آنے لگے |
جب ترے ابرو کی جنبش کم ہوئی |
جب تری پلکوں کی از خود تھرتھراہٹ بڑھ گئی |
جب ترے ہاتھوں سے میرے ہاتھ میں |
منتقل ہونے لگی اک سرد رَو |
جب تری آنکھوں سے کچھ مایوسیاں |
بہہ رہی تھیں آنسوئوں کے روپ میں |
اور مجھ سے کہہ رہی تھیں اَن کہی |
چھوڑدینا کوئی مشکل نہیں ۔۔۔۔۔۔ اے زندگی |
چھوڑنا تجھ کو مری مشکل ہوئی |
غم اگر کچھ ہے تو بس اتنا غم ہے |
تو بہت تنہا نہ رہ جائے کہیں |
اے مرے ساتھی نگہبانی مری |
تجھ کو یاد آکر نہ تڑپائے کہیں |
تیری دنیا پر کسی بھی سمت سے |
دھوپ کا سایہ نہ پڑجائے کہیں |
میں یہ سب منظر کھڑا سہتا رہا |
سرد لہریں سمتِ دل بڑھتی رہیں |
دل مرا آتش کدہ بنتا رہا |
خوف و امید و یقیں کے درمیاں |
برلب خاموش با صد احترام |
مالکِ کُل سے فقط یہ کہہ سکا |
میرا ایماں ہے کہ تُو جبّار ہے قہّار ہے |
پر مجھے یہ فخر بھی تو ہے کہ توُ رحمان ہے ستّار ہے |
اور پھر مجھ سے نہ کچھ مانگا گیا |
لب کھلے میرے نہ مجھ سے ہاتھ پھیلایا گیا |
وہ جو حاضر ہے وہ ناظر بھی تو ہے |
واقفِ احوال ہے ما فی الصدور |
کیا میں کہتا اس سے پھر بین السطور |
اس کو سب معلوم ہے ۔۔۔۔ اے جانِ جاں |
تُو شجر ہے برگ میں سہما ہوا |
روٹھ جائے تجھ سے گر بادِ بہار |
پیلے پیلے خشک پتّوں کی طرح |
ٹوٹ کر گرجائوں گا میں شاخ سے |
تُو صنم میرا ہے میں مٹّی تری |
تُو سلامت ہے تَو ہے قیمت مری |
ورنہ میں کیا اور مری ہستی ہی کیا |
خاک ہوں سو خاک میں مل جائوں گا |
اے صنم تیرے بغیر ۔۔۔۔۔ اے صنم تیرے بغیر |
|
No comments:
Post a Comment