پہلی غزل [C-1962] |

| ترے خیال کی دنیا سجا رہا ہوں میں |
| بس ایک کلی سے گلستاں بنا رہا ہوں میں |
|
|
| تمہاری زلف کی لہروں میں رقص ہے میرا |
| تمہارے دوش پہ دستِ صبا رہا ہوں میں |
|
|
| تمہیں نے اپنی لکیروں کو میرا نام دیا |
| تمہارے ہونٹوں پہ حرف دعا رہا ہوں میں |
|
|
| نہیں ہے عکسِ وفا مجھ میں کوئی بات نہیں |
| برائے شہرِ وفا آئینہ رہا ہوں میں |
|
|
| سخنوری مرا دعویٰ نہ آزری مقصود |
| غزل کو آپکا پیکر دکھا رہا ہوں میں |
|
|
| نہیں ہے ان سے مسیحائی کی امید تو پھر |
| یہ زخمِ دل بھی اُنہیں کیوں دکھا رہا ہوں میں |
|
|
| سویرا پاتے ہی اُس نے بھُلا دیا مجھ کو |
| وہ جس کی رات کا تنہا دیا رہا ہوں میں |
|
|
No comments:
Post a Comment