نُدرَتِ خیال | ||||||
[منتخب اشعار] | ||||||
تلخ و شیریں | ||||||
| ||||||
مُضطرب آنکھوں کا طرزِ گفتگو اچھا لگا | ||||||
اُن کو پہلی بار حَرفِ آرزو اچھا لگا | ||||||
تجھ کو دیکھا ہی کہاں دنیا نے میری آنکھ سے | ||||||
ورنہ ہر لب پر یہی ہوتا کہ توُ اچھا لگا | ||||||
ترے خیال کی دنیا سجا رہا ہوں میں | ||||||
بس اہک کلی سے گلستاں بنا رہا ہوں میں | ||||||
| ||||||
یہ حسرت ساتھ ہی جائے گی شاید | ||||||
محبت بے غرض ملتی کسی سے | ||||||
| ||||||
تری یادوں کی خوشبو سے کوئی منظر بنالوں گا | ||||||
غزل کہدوں گا اور تیرا حسیں پیکربنالوں گا | ||||||
| ||||||
چمن میں کیسے تری داستاں بیاں کرلوں | ||||||
ہر ایک پھول کو کیا اپنا راز داں کرلوں | ||||||
| ||||||
خواہشِ گریہ کو پلکوں تک نہ آنا چاہیے | ||||||
آبروئے غم بکھرنے سے بچانا چاہیے | ||||||
| ||||||
سبب نہ پوچھیے ان آنسوئوں کا اے اشعر | ||||||
کسی کو یاد کیا تھا ابھی ابھی میں نے | ||||||
| ||||||
اعتبار اک شخص پر یوں عمر بھر کرتے رہے | ||||||
وعدہء فردا پہ ہر شب کی سحر کرتے رہے | ||||||
| ||||||
تنگ اور ہوتا گیا کچھ اس کی یادوں کا حصار | ||||||
جس قدر ہم بھول جانے کی دعا کرتے رہے | ||||||
| ||||||
کیا سانحہ ہے اہل جنوں میں بھی اب کوئی | ||||||
جنس وفا کا چاہنے والا نہیں رہا | ||||||
| ||||||
مل نہ پائی مختصر سی زندگی میں آگہی | ||||||
عمر بھر لیکن یہ کارِ جستجو اچھا لگا | ||||||
| ||||||
لبوں پہ اپنے تبسّم سجائے رکھتے ہیں | ||||||
جو عشق کرتے ہیں، آہ و فغاں نہیں کرتے | ||||||
| ||||||
خیال تھا کہ یہ مغرب تو مثل جنّت ہے | ||||||
اسی بہانے جہنّم بھی دیکھ لی ہم نے | ||||||
وہ جو ایمان لے گئی ہوگی | ||||||
کوئی کافر ادا رہی ہوگی | ||||||
| ||||||
مجھ کو بے چین کررہی ہے صبا | ||||||
اُن کو چھُو کر اِدھر چلی ہوگی | ||||||
| ||||||
دل کے لُٹ جانے کی روداد سرِ بزم انہیں | ||||||
آنکھوں آنکھوں میں سنا دو تو غزل ہوتی ہے | ||||||
| ||||||
اس کے رُخ سے نقاب کیا اٹھی | ||||||
کھو گیا اپنا حسن گویائی | ||||||
| ||||||
ان سے کیا ہوسکے شناسائی | ||||||
ہم سے ہوتی نہیں جبیں سائی | ||||||
| ||||||
لکھتا رہا قصیدہ جو حاکم کی شان میں | ||||||
دورِ جدید کا وہ قلم کار ہوگیا | ||||||
| ||||||
نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں | ||||||
جیسے نادیدہ اندھیرے، روشنی کے ساتھ ہیں | ||||||
| ||||||
آئینہ دیکھ کر ہوا محسوس | ||||||
خود تماشا ہیں خود تماشائی | ||||||
| ||||||
گھر آپ کا بھی دور نہیں رہ گیا ہے اب | ||||||
اتنا وسیع حلقہء آتش نہ کیجیے | ||||||
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 9, 2009
Poetic Excellence نُدرَتِ خیال
اس کلام کے نستعلیق ورژن کے لیے یہاں کلک کریں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment