تلخ و شیریں |
دیباچہ |
|
ہماری اردو زبان نے برّصغیر پاک و ہند کے باہر پچھلی نصف صدی میں عام بول چال، پڑھنے پڑھانے، اور طباعت و اشاعت کے لحاظ سے قابل رشک ترقّی حاصل کی ہے۔
مشرق وسطیٰ، برطانیہ، امریکہ و کینیڈا کے بیشتر شہروں میں اردو ادب اجنبی زبان نہیں رہی ہے۔ پاک و ہند سے ترکِ سکونت کرنے والے یہاں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ بیشتر تارکینِ وطن نے ان ممالک کی قومیت بھی حاصل کرلی ہے۔ لیکن انہیں اپنی معاشی ضروریات کے علاوہ اپنے مذہب، کلچر، اور زبان کے تحفّظ اور ترویج جیسے مسائل کا بھرپور احساس ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے زبان کو بہر حال فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا ممالک کے تقریباً سبھی شہروں میں ادبی انجمنیں قائم ہیں، جو اردو کے ادبی مراکز سے دور ہونے کے باوجود اپنی بساط کے مطابق کتابوں کی اشاعت، ادبی کانفرنسوں اور بین الاقوامی مشاعروں کا اہتمام کرتی رہتی ہیں۔
ان انجمنوں کے کارکنان لائق مبارکباد ہیں کہ وہ نامساعد حالات کے باوجود سات سمندر پار اردو کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہیں۔ جس کی روشنی اکناف عالم میں پھیلتی جارہی ہے۔ ان انجمنوں میں “بزم فانوس، کینیڈا” بھی شامل ہے۔ اور امسال مُنیف اشعر کا شعری مجموعہ “تلخ و شیریں” بھی اسی انجمن کے زیرِ اہتمام شائع کیا جارہا ہے۔
منیف اشعر ایک مُدّت سے شعر کہہ رہے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن انہوں نے چند ایک نظمیں بھی کہی ہیں۔ ہر حسّاس اور باشعور شاعر کی طرح وہ بھی اپنے گردوپیش، ماحول، اور وطن کے حالات کے خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ چنانچہ، ان کی یہ نظمیں بجا طور پر ان کے معاشرتی کردار اور قومی فکر کی آئینہ دار ہیں۔ قلم کے موضوع پر قتیل شفائی، احمد فراز، اور بعض دیگر شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔ منیف اشعر نے “قلم جو بازار میں نہیں ہے” میں اس موضوع کو نئے انداز سے برتا ہے۔ اس نظم میں شوکتِ الفاظ، زورِ بیان، مصرعوں کی کاٹ، اور روانی پڑھنے سے تعلّق رکھتی ہے۔ نظم کے آخری مصرعے ملاحظہ کیجیے: ۔۔
انہی چراغوں کے دم سے شاید ابھی امّیدوں کی روشنی ہے بجُھا بھی دیں گر انہیں ہوائیں تو ان کے پیچھے ملیں گے ایسے نقوش ِپا کہکشاں کی صورت جو منزلوں کا سُراغ دیں گے یہی وہ کچھ اہلِ حق ہیں باقی کہ جن کے ہاتھوں میں وہ قلم ہے قلم جو بازار میں نہیں ہے !۔۔ ان کی ایک اور نظم “حاکمِ شہر کچھ تو کہہ” چند شہروں ہی نہیں، بلکہ ایک تہذیب کی تباہی کا نوحہ ہے۔ اس موضوع پر کراچی کے بعض شعراء نے بڑی کامیاب اور موءثر نظمیں کہی ہیں۔ منیف اشعر کی یہ نظم ان میں اضافہِ کا حُکم رکھتی ہے۔ حاکمِ شہر کا ایک بند ملاحظہ کیجیے: ۔۔
یوں بلا روک صرصر کا بڑھنا یہاں یوں گلوں کا سرِ شاخ جلنا یہاں صبحِ ناشاد کا پھر پلٹنا یہاں تلخ تر امتحاں کا گُزرنا یہاں تجھ سے کیسے بھلا سب یہ دیکھا گیا تجھ کو بھی کیوں نہ سیلِ بلا کھاگیا کچھ تو کہہ کچھ تو ہم بھی سُنیں داستان!۔
نظم “اے صنم تیرے بغیر” موت و زیست کی کشمکش کے نتیجہِ میں پیدا ہونے والے انسانی جذبات اور احساسات کی آئینہ دار ہے۔ اس نظم کے مرکزی خیال اور پس منظر کے بارے میں “عرضِ مُصنّف” میں مُنیف اشعر پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ ان کی ایک اور نظم “طوائف کون” کا میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا چاہوں گا۔ یہ نظم نہایت کامیاب نظمانہ بھی کہی جاسکتی ہے۔ انہوں نے نظم کے خوبصورت پیرائے میں ایک مُکمّل مختصر افسانہ بیان کردیا ہے۔ پلاٹ کے مطابق ایک طوائف نے اپنے محبوب کے لیے سب کچھ تج کر اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا تھا۔ لیکن اس خود غرض شخص نے بے وفائی کی، ساری حدوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی محبوبہ کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد چند سکّوں کے عوض اسے دوبارہ “اس بازار” میں فروخت کردیا۔ آخری مصرعوں میں نظم کا کلائمکس ملاحظہ کیجیے: ۔۔
پھر ایک دن وہ بہت مہرباں ہوا مجھ پر کہ اپنے جسم کی ہر سابقہ رفاقت کو وہ میری روح کے بدلہِ میں خود مرے ہاتھوں مرے بدن کے حوالہِ سے ان اندھیروں میں بڑے خلوص سے بازار میں وہ بیچ گیا سوال یہ ہے مرا اس جہاں کے لوگوں سے کوئی بتائے کہ دراصل ہے طوائف کون!۔
مجموعہِ میں شامل دیگر نظموں کے علاوہ: ایک نئی جنگ کا آغاز کریں، یقین محکم، یومِ اقبال، یومِ پاکستان، اور یومِ آزادی، اپنے وطن سے ان کی وابستگی کی مظہر ہیں۔
میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ منیف اشعر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ میرے نزدیک وہ ذہنی اور فکری طور پر جگر اسکول کے نمائندہ ہیں۔ ان کی غزلیں داخلی کیفیات اور محسوسات کے علاوہ مشاہدات اور تاءثرات کے خوبصورت امتزاج کی حامل ہیں۔ ان کے یہاں حسن و عشق کے رویّے اور معاملاتِ دل و نظر کے روایتی مضامین، زبان و بیان کی پاسداری کے ساتھ نئی جہتوں اور دل کش زاویوں کے ساتھ نظر آتے ہیں: ۔۔
چمن میں کیسے تری داستاں بیاں کرلوں ہر ایک پھول کو کیا اپنا رازداں کرلوں
خواہشِ گریہ کو پلکوں تک نہ آنا چاہیے آبروئے غم کو بکھرنے سے بچانا چاہیے
سبب نہ پوچھیے ان آنسوئوں کا اے اشعر کسی کو یاد کیا تھا ابھی ابھی میں نے
اعتبار اک شخص پر یوں عمر بھر کرتے رہے وعدہء فردا پہ ہر شب کی سحر کرتے رہے
مُنیف اشعر نے ہر باشعور شاعر کی طرح جدید حسّیت کو بھی انگیز کیا ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں، جن میں نُدرت بھی ہے، اور تجربہِ کا پرتو بھی ۔ مثلاً:۔۔ ہمارے آج کے بچّے دلیل مانگتے ہیں سو کوہِ قاف کی شیریں حکایتیں نہ رہیں
صف بندیاں وہ کیسے نہ کرتا مرے خلاف خوابوں میں اس کو میں نہیں لشکر دکھائی دے
کوئی منصور کہتا ہے کوئی سقراط مجھ کو مجھے لیکن مرا اپنا ستارہ چاہیے تھا
سمجھتا ہے کوئی مخلص مجھے کوئی مُنافق اُتر آتا ہے سب کا عکس مجھ میں آئینہ ہوں
تلخ و شیریں منیف اشعر کے کم و بیش تیس برسوں کی ریاضت کا حاصل ہے۔ اس مجموعہِ کے ہر صفحہِ پر آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا شعر ضرور مل جائے گا جو آپ کے ذوقِ شعری کی تسکین کا باعث بھی بنے گا، اور روح کی بشاشت کا بھی۔ آخر میں ان کے چند ایسے اشعار، جن کا شمار ہمارے عہد کی نمائندہ غزلوں کے منتخب اشعار میں کیا جائے گا: ۔۔
کون کہتا ہے کہ دیجیے آفتاب صرف روشن اک دیا کرجائیے
کیا وفا سے ہم بھی رشتہ توڑ لیں ہم بھی دنیا کی روِش اپنائیں کیا
تنگ اور ہوتا گیا کچھ اس کی یادوں کا حصار جس قدر ہم بھول جانے کی دعا کرتے رہے
کیا سانحہ ہے اہلِ جنوں میں بھی اب کوئی جنسِ وفا کا چاہنے والا نہیں رہا
مل نہ پائی مختصر سی زندگی میں آگہی عمر بھر لیکن یہ کارِ جستجو اچھا لگا
سویرا ہوگیا تو تم بھی آ پہنچے دیا لے کر اگر یہ کام کچھ پہلے کیا ہوتا تو کیا ہوتا
ادیب و فنکار کو جستجو کا سلسلہ ہی فکر و آگہی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ میری دعا ہے کہ منیف اشعر اسی طرح آگہی کی جستجو میں سرگرم رہیں، اور اپنی فکر کے نقوش صفحہء قرطاس پر ثبت کرتے رہیں۔ |
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Sunday, April 12, 2009
مُحسن بھوپالی - دیباچہ
محسن بھوپالی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment