ذائقہ تلخ و شیریں |
اس وقت سیّد محمّد مُنیف اشعر صاحب کا مجموعہ ءکلام “تلخ و شیریں” میرے پیشِ نظر ہے، اور تسکینِ ذوق و سیرابیء فکر و نظر کا سامان فراہم کررہا ہے۔ بایں ہمہ نہ تو اس مجموعہ کلام کا ذائقہ تلخ ہے اور نہ شیریں۔ یعنی نہ اس کی تلخی گلو خراش ہے، اور نہ اس کی شیرینی لب سوز۔ بلکہ دونوں کی آمیزش سے اور شاعر کی فنکارانہ صلاحیّت کے توسّط سے ایک ایسا نشاط انگیز اور کیف آور ذائقہ میسّر آتا ہے جسے اشعر کا تخلیقی اعجاز ہی کہا جائے گا۔
اس مجموعہِ میں غزلیں بھی ہیں، نظمیں بھی۔ لیکن بہ اعتبار معیارِ فن اور لطفِ سخن، دونوں متوازن اور ایک دوسرے کے متوازی ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اشعر کی غزلیں اپنے باطن میں نظم جیسی وسعت و کشادگی رکھتی ہیں، اور نظمیں بہ لحاظ اثر پذیری، غزل جیسی ہیں۔ نتیجتاً ۔۔ اشعر کے مجموعہء کلام کی غزلیں ہوں یا نظمیں، دونوں قاری کے لیے دلکشی و آسودگیء ذہن کا سامان رکھتی ہیں۔ ایسا سامان جو محض حرف و صوت کے خوبصورت اتّصال سے نہیں، بلکہ فکر و نظر کے جمال و جلال سے پیدا ہوتا ہے۔
ایک اور قابل توجّہ پہلو یہ ہے کہ بظاہر اشعر کی شاعری روایتی نظر آتی ہے، لیکن اسے واقعی روایتی خیال کرنا درست نہ ہوگا۔ ان کے یہاں دراصل اس صالح اور جاندار روایت کا تسلسل ہے جو ماضی کی کوکھ سے جنم لے کر حال کو سنوارتا ہے، اور مستقبل کو نویدِ بشارت دیتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اشعر نے ماضی کی مثبت اقدار سے جُڑے رہنے کے باوجود عصری تقاضوں یا جدید رجحانات کو نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ قدیم و جدید کے خوبصورت ملاپ سے دل و دماغ کے لیے ایسا سامانِ لطف اندوزی و فکر انگیزی فراہم کردیا ہے، جو انہیں اور ان کی شاعری کو تادیر زندہ رکھنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ اس غیر معمولی صلاحیّت کی تفصیل وقت چاہتی ہے۔ اس وقت یہ “سفّاک مسیحا مرے قابو میں نہیں”۔ اس لیے اجمال ہی سے کام لینا پڑے گا۔ لیکن کارآمد اجمال بھی استدلال کے بغیر معتبر نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے اشعر کی غزل کے چند اشعار بطورِ مثال سن لیجیے:۔۔
ہوائیں لاکھ دھکیلیں مجھے عدم کی طرف بلاوا آئے نہ جب تک مری بلا جائے
جہاں جہاں سے پُکارا گیا ہوں میں اشعر میں چاہتا ہوں وہاں تک مری صدا جائے
* کیسا ستم ہے شہرکو اشعر کے ہاتھ میں اک خامہ حق نگار بھی خنجر دکھائی دے
لبوں پہ اپنے تبسّم سجائے رکھتے ہیں جو عشق کرتے ہیں، آہ و فغاں نہیں کرتے
خیال تھا کہ یہ مغرب تو مثلِ جنّت ہے اسی بہانہِ جہنّم بھی دیکھ لی ہم نے
وہ جو ایمان لے گئی ہوگی کوئی کافر ادا رہی ہوگی
مجھ کو بے چین کررہی ہے صبا اُن کو چھُو کر اِدھر چلی ہوگی
*
دل کے لُٹ جانے کی روداد سرِ بزم اُنہیں آنکھوں آنکھوں میں سُنا دو تو غزل ہوتی ہے
*
وفا اور انتہائے عشق بھی تم دیکھ ہی لو گے میں کہتا ہوں چلو اشعر سے دیوانے کو دیکھو تو *
خوشا کہ بَن کے امیں، قاتلوں کا نشر ہوا امیرِ شہر کا اعلان خوں بہا اکثر
ان اشعار میں ماضی کی شاندار روایات کے نشانات بھی ہیں، حال کی بے چینی اور اضطراب کی کروٹیں بھی ہیں، اور مستقبل کے تقاضوں کی صدائیں بھی۔ اور یہ سارے اجزاء باہم ایک ہوکر اشعر کی فنکارانہ صلاحیّتوں کی معرفت کچھ ایسے دلکش و کار کشا بن گئے ہیں کہ صاحبانِ ذوق کو متاءثر کیے بغیر نہیں رہتے۔
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Monday, April 13, 2009
ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۔۔ ذائقہ تلخ و شیریں
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment