جبرِ معیشت نے برِّ صغیر پاک و ہند سے باہر اردو کی جو نئی بستیاں آباد کی ہیں، وہ ایک عجیب و غریب صورتِ حال کی آئینہ دار ہیں۔ ان نئی بستیوں کے باشندے ایک طرف پرانی بستیوں کی روایات سے وابستہ رہنے کی کوشش کررہے ہیں، اور دوسری طرف اجنبی دنیا کی تہذیب انہیں اپنے اندر جذب کرنے کے درپے ہے۔ نئی بستیاں آباد کرنے والے اپنے ماضی کو خوابِ فراموش سمجھنا چاہیں بھی تو ایسا نہیں کرسکتے۔ ان کا حال تو کیا، مستقبل بھی اس خوابِ مسلسل سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ نیا معاشرہ انہیں برابری کی سطح پر قبول نہیں کرتا۔ اور انہیں دوسرے درجہِ کے شہری بن کر رہنا پڑتا ہے۔
نئی بستیوں میں لکھے جانے والے اردو ادب میں اس صورت حال کی نہایت ہی عمدہ عکّاسی ملتی ہے۔ یہ ایک ایسی جہت ہے، جس سے ہمارا ادب اب تک نا آشنا تھا مُنیف اشعر کی شاعری کو میں نے اسی نقطہ نظر سے دیکھا۔ خوشی کی بات ہے کہ ان کی شاعری میں ایک حسّاس ذہن نئے حالات سے نبردآزما نظر آتا ہے۔ اور ایک ایسی داخلی کشمکش کی آئینہ داری کرتا ہے جو ہم دور سے نظارہ کرنے والوں کے لیے بالکل نئی ہے۔ اس قسم کے شعر :۔۔
خیال تھا کہ یہ مغرب تو مثلِ جنّت ہے
اسی بہانے جہنّم دیکھ لی ہم نے
شاعر کی داخلی کشمکش کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
مینف اشعر نے جدید بننے کے شوق میں اپنی روایات سے بے تعلّقی اختیار نہیں کی۔ ان کے نزدیک شاعرانہ ہنرمندی روایات کی پاسداری کا دوسرا نام ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ روایتی شاعر ہیں۔ روایتی شاعر لکیر کا فقیر ہوتا ہے۔ جب کہ، روایت سے صحت مند تعلّق رکھنے والا اپنا راستہ خود تراشتا ہے۔
مینف اشعر انہیں معنوں میں اہم شاعر ہیں۔ اور اسی لیے میں ان کے پہلے مجموعہء کلام کا خیر مقدّم کرتا ہوں۔
* * *
Photo Credit: (c) 2004 Mohammad bin Qasim, Justuju Media (November 2004)
zargrifth.blogspot.com
No comments:
Post a Comment