Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید

Monday, April 13, 2009

فہیم اعظمی -- ایک اہم ادبی کاوش

فہیم اعظمی


ایک اہم ادبی کاوش 

اطالوی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے: ۔

Poeta Nascitur, Non Fit.

A poet is born, not made.

یعنی، شاعر پیدا ہوتا ہے، بنایا نہیں جاتا۔ یہ شعر کی تخلیق کی ایک فطری صلاحیّت ہے۔ جو کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ یوں تو سیکھنے سے اور محنت کرنے سے بھی شعر کہنا آسکتا ہے، مگر فطرت کی طرف سے ودیعت کی ہوئی ایسی صلاحیّت کہ قلم اور قرطاس کے ملاپ سے "آمد"  شروع ہو جائے، کم لوگوں میں ہوتی ہے۔

منیف اشعؔر کی تخلیق “تلخ و شیریں “ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں بھی شعر کہنے کی فطری استعداد موجود ہے۔ میں اس کتاب کے خالق سے پوری طرح [ذاتی طور پر] واقف نہیں ہوں۔ لہٰذا یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے شعری ماحول میں آنکھ کھولی یا نہیں، لیکن “تلخ و شیریں “ کے اشعار پڑھنے سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں شاعری ورثہ میں ملی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں : ۔۔

ہر  ایک ذی ہوش پر اب تو عیاں ہے رات کا موسم

اب  اپنے شہر سے جاتا کہاں ہے رات کا موسم

*

گھر  آپ کا بھی دور نہیں رہ گیا ہے اب

اتنا  وسیع حلقہء آتش نہ کیجیے

شاعر کی کُہنہ مشقی اور ہُنر پر دسترس کے شواہد اس وقت نُمایاں ہوتے ہیں جب سہلِ مُمتنع میں کہے ہوئے اشعار پر غور کیا جائے۔  معنویت سے بھرپُور بلکہ کثیر المعنویت  پر دلالت کرتے ہوئے یہ اشعار استادانہ فن کے غمّاز ہیں:۔۔

قلم  کو توڑ نہ دوں میں تو کیا کروں اشعؔر

غزل کہوں تو یہ لکھتا ہے مرثیہ اکثر

*

چین  سے سونے نہیں دیتی شکن آلودگی

صرف کمرہ ہی نہیں بستر بھی دلکش چاہیے

*

مائل  بہ غزل گرچہ طبیعت نہیں اشعؔر

اس  دور کے سب کرب و مشاکل تو لکھوں گا

*

پھول  تم بھی عزیز رکھتے ہو

ایک  ہم ہی نہیں ہیں ہرجائی

*

غزل  میں جدید حسّیت، تجربات و مشاہدات کے باوجود روایت سے پوری طرح انحراف ممکن نہیں۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ غزل کے روایتی  مضامین کو اس طریقہ سے پیش کیا جائے کہ وہ  نَئے معلوم ہوں۔ لیکن یہ کوشش بھی تصنّع  سے پاک اور تمثال کے روپ میں شعری پیکر میں آنا چاہیے۔ اور یہی ایک فنکار کا طُرّہءامتیاز ہوتا ہے۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ تلخ وشیریں کا شاعر کس طرح اس جہت میں کامیاب ہے:۔۔

اس کے رُخ سے نقاب کیا اُٹھّی

کھو گیا اپنا حُسنِ گویائی

*

ہوگئے  ایک جان دو قالب

چاندنی  اس کی میری انگنائی

*

اُن  سے کیا ہوسکے شناسائی

ہم  سے ہوتی نہیں جبیں سائی

*

جِنسِ وفا کا ذکر بھلانے کی بات ہے

شاید  یہ پچھلے زمانہِ کی بات ہے

*

گو  برق تو گرتی ہے اکثر مرے گلشن پر

لیکن  کسی گلُچیں کو جلتے نہیں دیکھوگے

*

آ ئو چھُو کر تمہیں دیکھوں کہ یقین ہوجائے

تم کوئی خواب نہیں ہو کہ بکھر جائو گی

*

اور پھر شاعری میں کچھ احتجاج اور طنز کے پہلو شعری پیکر پہن کر یوں آتے ہیں کہ وہ ترقّی پسند نظریہ کے غمّاز معلوم ہوتے ہیں: ۔۔

لکھتا  رہا قصیدہ جو حاکم کی شان میں

دورِ  جدید کا وہ  قلم کار ہو گیا

*

کسی  مزدور کے گھر میں پلا ہوتا تو کیا ہوتا

امیرِ  شہر بھی فاقہ زدہ ہوتا تو کیا ہوتا

*

آپ مُنصف ہیں، اپنا کام کریں

کیا  ہوا گر وہ با اثر ٹھہرا

*

مسجدوں  میں بنا دیے مقتل

بے  نظیر آپ کا ہنر ٹھہرا

*

خوشا  کہ بن کے امیں قاتلوں کا نشر ہوا

امیرِ  شہر کا اعلانِ خوں بہا اکثر

*

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے اشعار برجستہ ایک تمثال کے طور پر سامنے آتے ہیں، اور ملکوں میں نا اہل حکمرانوں اور لوگوں کے جان و مال غیر محفوظ ہونے کا ردِّ عمل ہیں۔ اور  یہ شاعر کا تجربہ، جس کا مُحرِّک اس کا اپنا ملک ہے، ایک جامعیت کے ساتھ زمان و مکان سے ماورا ہوکر اُبھرتا ہے۔

غزلوں کی طرح نظموں میں بھی ایک فطری تخلیق کے نقوش نمایاں ہیں۔ پابند نظموں میں نظم، “ سائے “ اپنے نہایت پُر معنی عنوان کے ساتھ اس ناسٹلجیا [یادش بخیریا] کی ترجمانی کرتی ہے، جو  اپنی تمام عمر سایہ کی طرح ہمارے ساتھ  ہوتا ہے۔ اور جب شاعر جیسے حسّاس طبیعت والے کو اس کے امیجز ستاتے ہیں تو وہ بے  اختیار اپنے جذبات سے فرار اختیار کرتا  ہے۔

میرے بچپن کے وہ سب میت ہیں دیکھو کیسے

میرے  ساون کے وہ سب گیت ہیں دیکھو کیسے


اُن  کے ہی ساتھ گھروندے تھے بنائے میں نے

ان  کے ہی ساتھ کھلونے تھے سجائے میں نے

*

اور  اس لڑکی کی کہانی، جس سے وہ مُحبّت کرتا تھا، اور جو دوسرے کی ہوگئی، اور تعلیم  یا روزگار کے سلسلہِ میں شاعر کو گھر چھُوڑنا پڑا:۔۔

ہم کو گھر والوں نے تو گائوں بدر کر ہی دیا

گائوں  والوں نے کہیں اس کا بھی گھر کرہی دیا

یہ کہانی تھی کہ ایسے مرا بچپن گُزرا

کیسا  پُر درد مگر، ہائے لڑکپن گُزرا

*

اور ہم میں سے بیشتر لوگوں کی کہانی ہے، جس کی ترجُمانی شاعر کررہا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنے لڑکپن اور جوانی کی کہانی بیان کرتا ہے۔ گائوں کے مزدوروں اور کسانوں کی محنت کشی کی کہانی۔ شہر میں بے گھر لوگوں کی کہانی، اور پھر:۔۔


گائوں  پہنچا تو یہاں رنگ ہی بدلا دیکھا

پانی  تالابوں کا شفّاف تھا گدلا دیکھا

شہر  میں اپنا کوئی ہے نہ یہ گائوں اپنا

اب  اُٹھائوں تو کہاں جانے کو پائوں اپنا*

اور شاعر کے پائوں اُٹھے، اور اُس نے سات سمندر پار کینیڈا میں پناہ لی۔ مگر ناسٹلجیا  اور بچپن میں گائوں کے سایوں سے وہ پیچھا  نہ چھڑا سکا۔ یہ مَوضوعاتی نظم ہے۔ لیکن  ممکنہ حد تک شعری محاسن سے آراستہ ہے۔

اس مجموعہِ کی کئی اور پابند نظمیں ہیں: یومِ آزادی، یومِ پاکستان، یوم اقبال، وغیرہ ، جو شاعر کے جسمانی وجود کے مقام اور ذہنی و جذباتی وجود کا پتا دیتی ہیں۔ شاید ہمارے اکثر تارکین وطن کا یہی مقدّر ہے۔

اس  مجموعہِ میں کئی آزاد نظمیں ہیں۔ نظم، “بدلہِ کی بھائونا” میں آدمی کی فطرت، منطقی ریشنلائزیشن اور بے باکانہ اظہارِ حقیقت ملتا ہے۔ یہ نظم قاری کو ایک لطیف  تاءثر دیتی ہے۔ اور ہمارے خوف، تہذیب،  صبر کی تلقین کے باوجود پردے سے اصل انسان  جھانکتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے:۔۔

کیا  یہ ممکن ہے کہ ہر ظلم کو ہنس کر سہہ لوں

کیا  یہ ممکن ہے کہ ظالم سے کہوں

لیجیے  دوسرا رُخسار بھی حاضر ہے مرا

پڑھنے  والا مُجھے عظمت کا نشان سمجھے گا

دیکھنے  والا بھی بھگوان کہے گا مجھ کو


لیکن ظلم سہنا اور حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کے مطابق کوئی ایک رخسار پر طمانچہ مارے تو  دوسرا بھی پیش کردینا، اس غیر انسانی دنیا میں ظلم کو برداشت کرنا بھگوان کا کام بھی  نہیں۔


ایسی  منزل پہ تو بھگوان کے اوتار بھی گر جاتے ہیں

بھائونا  بدلہِ کی لے کو جو نکل پڑتے ہیں


اور نتیجہ کیا ہوتا ہے؟


کچھ  تو مر جاتے ہیں اس آگ میں خود ہی جل کر

اور  کچھ لوگ جو پالیتے ہیں منزل اپنی

لوگ  ان لوگوں کو سُولی پر چڑھا دیتے ہیں

اور شاعر نے فلسفیانہ انداز میں دوسرے رخسار کو پیش کرنے اور “آنکھ کے بدلہِ آنکھ”، “دانت کے بدلہِ دانت” کے اُصولوں کو پیش کیا ہے، اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ہے۔

نظم “زندگی یا مَوت” میں شاع ر نے نہایت دردمندانہ الفاظ میں پاکستان میں عدم اتِّحاد اور خود غرضی کا ذکر کیا ہے۔ اور حالات کے سدُھرنے کی دعائیں کی ہیں۔ موضوع  کے اعتبار سے یہ نظم بھی شاعر کی حُبّ الوطنی اور ہم وطنوں کے انتشار کی ترجمان ہے، جس میں وطن کی بقا کے بارے میں خدشات بھی مُضمر ہیں۔

اپنے  مُلک کے حالات سے عارضی مایوسی، صاحبانِ اقتدار سے شکوہ، اور پُر امّید مستقبل کی ترجمانی، ہجرت کا مقصد اور کرب، جنگ کے مُضر اثرات اور “بس آئینہ نہیں ہے” میں ناکام مُحبّت کی کہانی، یہ سب حقیقت نگاری کے اسلوب ہیں۔ ایک کرب کی داستان ہے، جو ہر مُحبِّ وطن شخص کی داستاں معلوم ہوتی ہے۔

غزلوں  اور نظموں، دونوں اصناف میں مُنیف اشعؔر کی مہارت اور کلام پر خاطر خواہ دسترس، ان کے شعری مجموعہ، “تلخ و شیریں” کو  ایک اہم ادبی کاوش کے طور پر دنیائے ادب  میں قبول کیا جائے گا۔


ھو  اللہ و لی التوفیق ۔۔


* * *



No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for more Justuju Projects