راغب مُراد آبادی
شاہ کارِ اشعؔر
سیّد مُنیف اشعؔر سے ملاقات پہلی بار کئی سال قبل اردو کے نامور شاعر جناب حنیف اخگؔر ملیح آبادی کے دولت کدہِ پر ڈالر کی سرزمین کے ایک عظیم شہر نیویارک میں ہوئی تھی۔
جناب حنیف اخگؔر ملیح آبادی نے بتایا کہ یہ ان کے حقیقی برادرِ خُرد ہیں۔ اور اِن کا قیام کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں ہے۔ یہ بھی شعر کہتے ہیں۔ ازاں بعد، سیّد حنیف اخگؔر ملیح آبادی جب کراچی تشریف لائے تو ایک دن انہوں نے بتایا کہ میرے چھوٹے بھائی منیف اشعؔر کینسر کے مرض میں مُبتلا ہیں۔ ان کی صحت یابی کی دعا کیجیے گا۔
مارچ 2002 ء کے پہلے ہفتہِ میں مجھے مُنیف اشعؔر کا ٹیلی فون آیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں کراچی آیا ہوا ہوں ۔۔۔ اپنے مجموعۂ کلام کی طباعت کے سلسلہِ میں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ میرے کلام پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اپنے تاءثّرات قلم بند کردیں! ۔ میں نے بلا توقّف اثبات میں جواب دیا۔ دس مارچ کو جناب اشعؔر نے غریب خانہِ کو اپنے قدومِ مہمنت لزوم سے سرفراز فرمایا۔ اور کہا: کہ آپ آج ہی لکھ دیں۔ میں کل 2 بجے تک لے جاؤنگا۔
مُسوّدِہ پر دسویں مارچ ہی کو طائرانہ نظر ڈالی۔ زیرِ طبع مجموعہِ تلخ و شیریں میں دونوں کیفیتیں ہیں، جنہوں نے مُجھے مُتأثرّ کیا۔ اس عالمِ اضداد میں جو کچھ بھی ہے، اس کے مثبت اور منفی دونوں ہی رخ ہیں۔ کُلّیاتِ میر کو بامعانِ نظر پڑھیے تو آپ ناقدین کی اس رائے سے اتّفاق کریں گے کہ میر تقی میؔر کا کلامِ بلند، نہایت بلند، اور پست، نہایت پست ہے۔ ہم کسی شاعر کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کرنے کے مجاز نہیں کہ اس کا کلام نہایت بلند ہے۔ غالؔب و مومؔن کی غزل میں جہاں دو تین شعر بہت اچھے ملتے ہیں، وہاں چند ہمارے معیارِ نقد و نظر پر پورے نہیں اترتے۔
جناب اشعؔر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کے پہلو میں ایک حسّاس اور دردمند دل ہے۔ وہ جو بھی کہتے ہیں، غور و فکر کے بعد کہتے ہیں۔ صالح روایات کے پاسدار ہیں۔ لیکن جدید دور کے تقاضوں پر بھی ان کی نظر ہے۔ زبان و بیان کی نزاکتوں سے نا آشنا نہیں۔ اسالیبِ سُخن اور تقاضائے فن کو نظر انداز نہیں کرتے۔ غمِ دوراں کے ساتھ غمِ جاناں کو بھی عزیز رکھتے ہیں۔ کلام میں سُوقیانہ رنگ بالکل نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں ورثہِ میں اجداد سے دولتِ اخلاق و شرافت بھی ملی ہے۔ اور بفضلٖہ وہ دین دار اور حق شعار بھی ہیں۔
جناب اشعؔر کے درج ذیل اشعار نے مجُھے بطورِ خاص متأثر کیا۔ اُمّید ہے کہ یہ اشعار قارئین کو بھی پسند آئیں گے: ۔۔
نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں
جیسے نادیدہ اندھیرے، روشنی کے ساتھ ہیں
*
آئینہ دیکھ کر ہوا محسوس
خود تماشہ ہیں خود تماشائی
*
اب اس سے بڑھ کے کس کو ملے گی تونگری
قسمت میں جس کی، دولتِ رزقِ حلال ہے
*
خاک ہونے کو نہ کیوں خاکِ مدینہ مانگوں
اس سے بڑھ کر توَ حسین کوئی زمیں اور نہیں
*
دل میں یوں رہتی ہے تکمیلِ تمنّا کی اُمّید
دوُر صحرا میں کوئی پھول کھِلا ہو جیسے
*
اب اس قدر بھی نہ کر تُو مری پذیرائی
کہ مجھ کو پھر سے یقیں دشمنی کا ہو کے رہے
*
اک تم ہی نہیں ہو کہ جسے بھول رہا ہوں
یاد اور بھی کچھ خواب سہانے آتے
*
کسی مزدور کے گھر میں پلا ہوتا تو کیا ہوتا
امیرِ شہر بھی فاقہ زدہ ہوتا تو کیا ہوتا
*
جو میری نگاہوں میں نہ لائے تری صورت
وہ حسن کا پیکر، مجھے اچھا نہیں لگتا
*
جب پیار سے کوئی پیش آیا
کچھ لوگ پُرانے یاد آئے
*
ہمارے بعد بھی اے دوستو، گزارش ہے
یونہی لبوں پہ ہمارے لیے دعا رکھنا
*
حاکم شہر سجاتا ہے سجالے مقتل
سر ہتھیلی پہ لیے اہلِ قلم آتے ہیں
*
وہ شخص، دشمنی بھی ہے جس کی کھلی کتاب
ہر طرح ہمنواؤں سے برتر ملا مُجھے
سب سے پہلے تو میں “تلخ و شیریں” کے قارئین کرام سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ شافیٔ مطلق کی بارگاہ میں دعا کریں کہ جناب اشعؔر ملیح آبادی صحتِ کامل و عاجل سے ہمکنار ہوں، اور عمرِ دراز پائیں۔ اس کے بعد یہ دعا کروں گا کہ ان کے مجموعۂ کلام کو قبولِ عام کی سند حاصل ہو۔ اور ان کی عمر بھر کی کاوش نظر انداز نہ ہونے پائے۔ میں سیّد مُنیف اشعؔر کے لیے ہر جہتی کامیابی کا مُتمنّی ہوں۔
ایں دعا از مِن و از جُملہ جہاں آمین بار ۔۔۔۔
جناب منیف اشعؔر کے لیے دو رباعِیاں پیش کرتا ہوں:۔۔
پڑھ کے دیکھیں بہ چشمِ خود اہلِ نظر
اِبلاغِ ہُنر ہے فرض بے شک مجھ پر
راغب ہے سزاوارِ ستایش یہ کلام
تلخ و شیریں ہے شاہ کارِ اشعؔر
*
دل کش ہے بہت منیف اشعؔر کا کلام
حاصل شعرأ میں ہے بلند اُن کو مقام
۔“تلخ و شیریں” ہے آپ ہی اپنی مثال
مقبولِ جہاں ہو یہ خداوندِ انام
* * *
No comments:
Post a Comment