-
نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں
جیسے نادیدہ اندھیرے روشنی کے ساتھ ہیں
-
اب قلندر کی صدا میں کیا کشش پائیں گے لوگ
آج تو سب مال و زر کی دلکشی کے ساتھ ہیں
-
کون خوشیوں پر کرے تکیہ جو کل تک ہوں نہ ہوں
درد و غم اپنائیے جو زندگی کے ساتھ ہیں
-
خود فریبی ہے کہ میں اُس کے لیے سجدہِ میں ہوں
ورنہ کتنی خواہشیں اس بندگی کے ساتھ ہیں
-
ضربِ تیرِ نیم کش کا لطف کچھ ہم کو بھی دے
ہم بھی اپنی آرزوئے خودکشی کے ساتھ ہیں
-
کیسے آجائیں ابابیلیں لئے کنکر کہ ہم
جنگِ بے مقصد میں شامل بے دلی کے ساتھ ہیں
-
ہوسکے تو دوستوں میں کچھ تبسّم بانٹ دو
غم کے افسانے تو ورنہ ہر کسی کے ساتھ ہیں
-
برہمی و بے رُخی سے واسطہ پڑنا ہی تھا
عشوہ و ناز و ادا تو عاشقی کے ساتھ ہیں
-
وہ ہمارا ہم سفر ہونے نہیں پایا مگر
ہم اسی کے ساتھ تھے اشعؔر اُسی کے ساتھ ہیں
-
***
-
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 16, 2009
ساتھ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment