
ستم دیکھو شکیبائی سے بڑھ کر ہونہ جائے دلِ دریا کہیں گر کر سمندرہونہ جائے |
مری پستہ قدی کی بات ثابت کرتے کرتے تری قامت کہیں میرے برابر ہونہ جائے |
محبّت کررہا ہوں میں جنوں کی آرزو میں مگردشتِ جنوں ہی کل مرا گھر ہونہ جائے |
اگرچہ عقل کے پہرے سے لگے رہتے ہیں اس پر دلِ سرکش مگر قابو سے باہر ہونہ جائے |
فقط اس خوف سے اک اور ہجرت کی ہے میں نے مری طرح میری اولاد بے گھر ہو نہ جائے |
وہ جب چاہے بھلا دے گا مجھے کہتا ہے اشعؔر تو پھر کیوں بے نشاں وہ میرے اندر ہونہ جائے |
|
No comments:
Post a Comment