اُنہیں خوشی ہے کہ باہم شکایتیں نہ رہیں ہمیں یہ خوف کہ شاید محبّتیں نہ رہیں |
میں بے نیازِ زمانہ نہ ہوسکا پھر بھی زمانہِ بھر کی اگرچہ ضرورتیں نہ رہیں |
نہ کوہ کن ہے کوئی اب نہ کوئی دشت نورد محبّتوں میں اب ایسی قباحتیں نہ رہیں |
سکون مجھ کو بہت مضطرب سا کردے گا میں کیا کرونگا جو اس کی شرارتیں نہ رہیں |
ہمارے آج کے بچّے دلیل مانگتے ہیں سو کوہ قاف کی شیریں حکایتیں نہ رہیں |
سخن کو آگ لگادوں گا میں سرِ محفل غزل میں گر کبھی تیری شباہتیں نہ رہیں |
یہ فیض وقت کے مرہم کا میری ذات پہ ہے کہ سرخروئی پہ مائل جراحتیں نہ رہیں |
گلہ کسی سے بھی مہرو وفا کا کیسے کریں خود اپنی جھولی میں اپنی روایتیں نہ رہیں |
میں صرف کانٹوں کی بدصورتی کو کیوں روتا کئی گلوں میں بھی پہلی صباحتیں نہ رہیں |
نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہمیں اشعؔر ہماری ذات پہ ان کی عنایتیں نہ رہیں |
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
انہیں خوشی ہے کہ ۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment