سُخن کی اپنے نہ جانے حیات ہو کہ نہ ہو کسی کی بزم میں پھر اپنی بات ہو کہ نہ ہو |
ابھی تو عیش کے دن ہیں مگر خدا معلوم شریکِ غم بھی شریکِ حیات ہو کہ نہ ہو |
وہ جس کے بعد بہت دیر تک سویرا رہے نصیب شہر میں اب ایسی رات ہو کہ نہ ہو |
جو متّقی ہیں انہیں کو یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ سہل اپنے لیے پل صراط ہو کہ نہ ہو |
ارادہ کرتا ہوں چلتا ہوں لوٹ آتا ہوں اب اس گلی میں وہ پہلی سی بات ہو کہ نہ ہو |
جلانے والے مجھے اتنا سوچ لے تو بھی تری خوشی کو بھی حاصل ثبات ہو کہ نہ ہو |
تجھے مٹا کے بھی اشعؔر مجھے سکوں نہ ملا میں جس کو مات سمجھتا ہوں مات ہو کہ نہ ہو |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
سخن کی اپنے نہ جانے حیات ہو کہ نہ ہو ۔۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment