
| سُخن کی اپنے نہ جانے حیات ہو کہ نہ ہو کسی کی بزم میں پھر اپنی بات ہو کہ نہ ہو |
| ابھی تو عیش کے دن ہیں مگر خدا معلوم شریکِ غم بھی شریکِ حیات ہو کہ نہ ہو |
| وہ جس کے بعد بہت دیر تک سویرا رہے نصیب شہر میں اب ایسی رات ہو کہ نہ ہو |
| جو متّقی ہیں انہیں کو یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ سہل اپنے لیے پل صراط ہو کہ نہ ہو |
| ارادہ کرتا ہوں چلتا ہوں لوٹ آتا ہوں اب اس گلی میں وہ پہلی سی بات ہو کہ نہ ہو |
| جلانے والے مجھے اتنا سوچ لے تو بھی تری خوشی کو بھی حاصل ثبات ہو کہ نہ ہو |
| تجھے مٹا کے بھی اشعؔر مجھے سکوں نہ ملا میں جس کو مات سمجھتا ہوں مات ہو کہ نہ ہو |
|
|
No comments:
Post a Comment