درد جب آنکھ سے اشکوں کی روانی مانگے مجھ سے دل ضبط کا اندازِ جوانی مانگے |
بات ایک روز نئی چاہیے سچ ہو کہ نہ ہو عالمِ طفل تو بس کوئی کہانی مانگے |
کیا بھلا خاک کرے گا وہ کوئی راہبری ہر مسافر سے جو منزل کی نشانی مانگے |
عشق کیا عام ہوا اپنا کہ دنیا ہم سے ایک اک لمحہِ کی اک رام کہانی مانگے |
گھر تو پیارا ہے ہمیں اب بھی رگِ جاں کی طرح گھر کا ماحول مگر نقل مکانی مانگے |
اپنا ہر عکس نئے رنگ میں دیتا ہے ہمیں اور ہم سے وہی تصویر پرانی مانگے |
درد اظہار کاطالب تو ہے اشعؔر لیکن رُونمائی کے لیے طرزِ نہانی مانگے |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
درد جب آنکھ سے اشکوں کی روانی مانگے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment