
| ہے کہیں ہم سا مصوّر تو بتائے کوئی عمر بھر ایک ہی تصویر بنائے کوئی |
| اپنی راہوں پہ مجھے ایسا لگائے کوئی اور رستہ ہی نظر مجھ کو نہ آئے کوئی |
| اُن کے آنے کی خبر ہے تو بتاؤ کیسے اپنی دہلیز پہ آنکھیں نہ بچھائے کوئی |
| دل میں بڑھ جائے تو آنکھوں سے چھلک پڑتاہے سرکشی درد کی پھر کیسے چھپائے کوئی |
| آنہیں سکتا تو یادوں میں بسیرا کیوں ہے اس سے اچھا ہے کبھی یاد نہ آئے کوئی |
| میرے ہر خواب کو چاند سا چہرہ دے کر آرزو وصل کی ہر رات جگائے کوئی |
| کرکے ہر روز نیا وعدۂ تجدیدِ وفا صاف کہہ دیجیے اب دل نہ جلائے کوئی |
| مینا و جام کی بانہوں میں نہ جاؤں لیکن بادۂ چشم تو جی بھر کے پلائے کوئی |
| میں تو صحرا بھی چمن زار بنادوں اشعؔر اپنے پیکر کی بہارِیں تو دکھائے کوئی |
|
|
No comments:
Post a Comment