شمعِ انمول کو ارزاں نہیں ہونے دیتا وہ اسے شعلہ بہ داماں نہیں ہونے دیتا |
لاکھ ہو ذہن پراگندہ و برہم لیکن وہ کبھی زلف پریشاں نہیں ہونے دیتا |
عین ممکن ہے کہ پھر کوئی بلندی پا جائے آدمی خود کو ہی انساں نہیں ہونے دیتا |
میں تو جاتا ہوں تکلّف کی ردا سر پہ رکھے ہاں مگر وہ مجھے مہماں نہیں ہونے دیتا |
درمیاں فاصلہ رکھتا ہے جو ساحل پہ سدا مجھکو تنہا پئے طوفاں نہیں ہونے دیتا |
اشک نظروں میں جو آجائیں تو عزّت کھودیں میں نمائش سرِ مژگان نہیں ہونے دیتا |
بس دیے جاتا ہے ہر وقت دعائیں اشعؔر وہ مری موت کو آساں نہیں ہونے دیتا |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
شمعِ انمول کو ارزاں نہیں ہونے دیتا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment