
| شمعِ انمول کو ارزاں نہیں ہونے دیتا وہ اسے شعلہ بہ داماں نہیں ہونے دیتا |
| لاکھ ہو ذہن پراگندہ و برہم لیکن وہ کبھی زلف پریشاں نہیں ہونے دیتا |
| عین ممکن ہے کہ پھر کوئی بلندی پا جائے آدمی خود کو ہی انساں نہیں ہونے دیتا |
| میں تو جاتا ہوں تکلّف کی ردا سر پہ رکھے ہاں مگر وہ مجھے مہماں نہیں ہونے دیتا |
| درمیاں فاصلہ رکھتا ہے جو ساحل پہ سدا مجھکو تنہا پئے طوفاں نہیں ہونے دیتا |
| اشک نظروں میں جو آجائیں تو عزّت کھودیں میں نمائش سرِ مژگان نہیں ہونے دیتا |
| بس دیے جاتا ہے ہر وقت دعائیں اشعؔر وہ مری موت کو آساں نہیں ہونے دیتا |
|
|
No comments:
Post a Comment