خواہشِ گریہ کو پلکوں تک نہ آنا چاہیے آبروئے غم بکھرنے سے بچانا چاہیے |
تاکہ پسپائی پہ ہومجبور شرمندہ رہے درد جب حد سے بڑھے تو مُسکرانا چاہیے |
فُرصتِ فکررفوئے چاک دل کس کو مگر سب کو بہرِ داستاں کوئی فسانہ چاہیے |
قافیہ بندی کا فن ہی تو نہیں ہے شاعری شعر کو فکرونظر بھی شاعرانہ چاہیے |
عشق کا لمحہ بھی آتا ہے محبّت میں ضرور ہاں مگر اس ایک لمحہِ کو زمانہَ چاہیے |
بے سبب تو کوئی ہستی بھی عدم ہوتی نہیں انتہائے زیست کو بھی اک بہانہ چاہیے |
گوکہ اب تادیر مشکل لگ رہا ہے ان کا ساتھ پھر بھی اے اشعؔر جہاں تک ہو نبھانا چاہیے |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Friday, April 24, 2009
خواہشِ گریہ کو پلکوں تک نہ آنا چاہیے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment