
| مُضطرب آنکھوں کا طرزِ گفتگو اچھا لگا اُن کو پہلی بار حَرفِ آرزو اچھا لگا |
| مل نہ پائی مختصر سی زندگی میں آگہی عمر بھر لیکن یہ کارِ جسُتجو اچھا لگا |
| درد کی صورت جو دل کے آئینے پر ثبت ہے عکس ہے تیرا کہ شہرِ رنگ و بو اچھا لگا |
| ڈوب کر آئینہ بھی دیکھا کیا تم کو مگر سچ کہو میں یا تمہیں میرا عَدُو اچھا لگا |
| تجھ کو دیکھا ہی کہاں دنیا نے میری آنکھ سے ورنہ ہر لب پر یہی ہوتا کہ تُو اچھا لگا |
| وہ ہمیں جس طور سے بھی آج تک ملتا رہا ہم کو بھی ہر صورت میں اپنے رُو بہ رُو اچھا لگا |
| آپ کی نسبت سے رسوائی بھی ٹھہری معتبر وحشتِ اشعؔر کا قصّہ کوُبہ کُو اچھا لگا |
|
|
No comments:
Post a Comment