بس آئینہ نہیں ہے |
|
|
تجھے تو یاد ہوگا ہم نے جو قربانیاں دیں |
تجھے اپنا لہو تک دیدیا تھا |
تجھے اپنا بنایا تھا بڑی چاہت سے ہم نے |
جلا کر آشیاں اپنا تجھے پایا تھا ہم نے |
اور اس کے بعد بھی ہم پر جو گزری |
تجھے اُسکا بھی سب ادراک ہوگا |
ہمارا تجھ سے جو رشتہ ہے اب تک |
اگرچہ ہے بڑا مضبوط بندھن |
مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جاناں |
رہا ہے آج تک آنکھوں میں جن کی |
مثالِ خار یہ رشتہ ہمارا |
لہٰذا آج تک قائم ہیں ضد پر |
یہ نامنظور نا منظور ہی کہتے رہے ہیں |
ہمیں کیا قتل کرتے ہیں تجھے بھی توڑتے ہیں |
نشہ طاقت کا چڑھ جائے تو اکثر |
یہ تیرا بے وفا کہتے ہیں ہم کو |
ہمیں جاناں ہنسی آتی ہے اُن پر |
کہ جن کے پاس سب کچھ ہے، بس آئینہ نہیں ہے!۔۔ |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 30, 2009
بس آئینہ نہیں ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment