
| بس آئینہ نہیں ہے |
|
|
|
|
| تجھے تو یاد ہوگا ہم نے جو قربانیاں دیں |
| تجھے اپنا لہو تک دیدیا تھا |
| تجھے اپنا بنایا تھا بڑی چاہت سے ہم نے |
| جلا کر آشیاں اپنا تجھے پایا تھا ہم نے |
| اور اس کے بعد بھی ہم پر جو گزری |
| تجھے اُسکا بھی سب ادراک ہوگا |
| ہمارا تجھ سے جو رشتہ ہے اب تک |
| اگرچہ ہے بڑا مضبوط بندھن |
| مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جاناں |
| رہا ہے آج تک آنکھوں میں جن کی |
| مثالِ خار یہ رشتہ ہمارا |
| لہٰذا آج تک قائم ہیں ضد پر |
| یہ نامنظور نا منظور ہی کہتے رہے ہیں |
| ہمیں کیا قتل کرتے ہیں تجھے بھی توڑتے ہیں |
| نشہ طاقت کا چڑھ جائے تو اکثر |
| یہ تیرا بے وفا کہتے ہیں ہم کو |
| ہمیں جاناں ہنسی آتی ہے اُن پر |
| کہ جن کے پاس سب کچھ ہے، بس آئینہ نہیں ہے!۔۔ |
|
|
No comments:
Post a Comment