|
بدلہِ کی بھاؤنا |
|
|
کیا یہ ممکن ہے کہ ہر ظلم کو ہنس کے سہہ لوں |
کیا یہ ممکن ہے کہ بدلہِ کی تمنّا ہی نہ ہو |
کیا یہ ممکن ہے کہ ظالم سے کہوں |
لیجیے دوسرا رخسار بھی حاضر ہےمرا |
ہاں یہ ممکن ہی نہیں بلکہ بہت خوش کن ہے |
سننے والا توفرشتوں سے ملائے گا مجھے |
پڑھنے والا مجھے عظمت کا نشاں سمجھے گا |
دیکھنے والا بھی بھگوان کہے گا مجھ کو |
پر یہاں شرط ہے اک چھوٹی سی میری بھی حضور |
بات ہو کہنے کی یہ کہنے کی حد تک محدود |
اور اگر بات عمل کی ہے تو سنیے سرکار |
میں فرشتہ ہوں نہ بھگوان بس اک انساں ہوں |
اور انسان ہے در اصل ازل سے کمزور |
ایسی منزل پہ تو بھگوان کے اوتاربھی گر جاتے ہیں |
بھاؤنا بدلہِ کی لیکر جو نکل پڑتے ہیں |
کچھ تو مرجاتے ہیں اس آگ میں خود ہی جل کر |
اور کچھ لوگ جو پالیتے ہیں منزل اپنی |
لوگ ان لوگوں کو سولی پہ چڑھادیتے ہیں |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 30, 2009
بدلہِ کی بھاؤنا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment