
|
|
| بدلہِ کی بھاؤنا |
|
|
|
|
| کیا یہ ممکن ہے کہ ہر ظلم کو ہنس کے سہہ لوں |
| کیا یہ ممکن ہے کہ بدلہِ کی تمنّا ہی نہ ہو |
| کیا یہ ممکن ہے کہ ظالم سے کہوں |
| لیجیے دوسرا رخسار بھی حاضر ہےمرا |
| ہاں یہ ممکن ہی نہیں بلکہ بہت خوش کن ہے |
| سننے والا توفرشتوں سے ملائے گا مجھے |
| پڑھنے والا مجھے عظمت کا نشاں سمجھے گا |
| دیکھنے والا بھی بھگوان کہے گا مجھ کو |
| پر یہاں شرط ہے اک چھوٹی سی میری بھی حضور |
| بات ہو کہنے کی یہ کہنے کی حد تک محدود |
| اور اگر بات عمل کی ہے تو سنیے سرکار |
| میں فرشتہ ہوں نہ بھگوان بس اک انساں ہوں |
| اور انسان ہے در اصل ازل سے کمزور |
| ایسی منزل پہ تو بھگوان کے اوتاربھی گر جاتے ہیں |
| بھاؤنا بدلہِ کی لیکر جو نکل پڑتے ہیں |
| کچھ تو مرجاتے ہیں اس آگ میں خود ہی جل کر |
| اور کچھ لوگ جو پالیتے ہیں منزل اپنی |
| لوگ ان لوگوں کو سولی پہ چڑھادیتے ہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment