
| یقینِ محکم |
|
|
|
|
| خراجِ قائد یہی ہے شاید |
| عقیدتوں کا یہی تقاضا |
| کہ ان کی باتوں کو یاد رکھیں |
| کہ ان کے اقوال پر عمل ہو |
| تم اتّحادی بنو کسی کے |
| کہ برکتیں اتّحاد میں ہیں |
| گروہ اپنا کرو منظّم |
| کہ امرِ تنظیم ہے ضروری |
| جو تم میں لیڈر کی شکل کا ہو |
| جو حاملِ ذوقِ لیڈری ہو |
| بس اس کے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھ دو |
| وہ جب بھی چاہے |
| بلا تردّد |
| تم اس کے پیروں پہ سر بھی رکھ دو |
| اور ایسا کرتے ہوئے اگر کچھ |
| سُرُور محسوس ہورہا ہو |
| تو تم سمجھ لو کہ مل گیا ہے یقین تم کو |
| تمہارے لیڈر سے گاہے گاہے |
| تمام احکام جو عطا ہوں |
| بس ایک روبوٹ کی طرح سے |
| لگا کے بابِ خِرَد کو تالا |
| تم اپنی آنکھوں کو بند کرکے |
| عبادتوں کی طرح نباہو |
| اشارہ پاتے ہی تم اچانک |
| ہوا تعصّب کی یوں چلاؤ |
| کہ آندھیوں کی مثال ٹھہرے |
| جو کارِ تخریب کرنے نکلو |
| بہت سا بارود ساتھ رکھ لو |
| جہاں ضرورت پڑے وہاں تم |
| یہ دیکھنا کیا |
| کہ کتنے ہوں گے چراغ ٹھنڈے |
| کہ کتنی چیخیں بلند ہوں گی |
| کہ کتنے بچّے جلیں گے اس میں |
| تمام بارود خرچ کردو |
| مگر تمہارا ضمیر پھر بھی |
| نہ تم سے کوئی سوال پوچھے |
| تو تم سمجھ لو |
| یقیں تمہارا |
| اب ہوچکا ہے یقینِ محکم |
|
|
No comments:
Post a Comment