یقینِ محکم |
|
|
خراجِ قائد یہی ہے شاید |
عقیدتوں کا یہی تقاضا |
کہ ان کی باتوں کو یاد رکھیں |
کہ ان کے اقوال پر عمل ہو |
تم اتّحادی بنو کسی کے |
کہ برکتیں اتّحاد میں ہیں |
گروہ اپنا کرو منظّم |
کہ امرِ تنظیم ہے ضروری |
جو تم میں لیڈر کی شکل کا ہو |
جو حاملِ ذوقِ لیڈری ہو |
بس اس کے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھ دو |
وہ جب بھی چاہے |
بلا تردّد |
تم اس کے پیروں پہ سر بھی رکھ دو |
اور ایسا کرتے ہوئے اگر کچھ |
سُرُور محسوس ہورہا ہو |
تو تم سمجھ لو کہ مل گیا ہے یقین تم کو |
تمہارے لیڈر سے گاہے گاہے |
تمام احکام جو عطا ہوں |
بس ایک روبوٹ کی طرح سے |
لگا کے بابِ خِرَد کو تالا |
تم اپنی آنکھوں کو بند کرکے |
عبادتوں کی طرح نباہو |
اشارہ پاتے ہی تم اچانک |
ہوا تعصّب کی یوں چلاؤ |
کہ آندھیوں کی مثال ٹھہرے |
جو کارِ تخریب کرنے نکلو |
بہت سا بارود ساتھ رکھ لو |
جہاں ضرورت پڑے وہاں تم |
یہ دیکھنا کیا |
کہ کتنے ہوں گے چراغ ٹھنڈے |
کہ کتنی چیخیں بلند ہوں گی |
کہ کتنے بچّے جلیں گے اس میں |
تمام بارود خرچ کردو |
مگر تمہارا ضمیر پھر بھی |
نہ تم سے کوئی سوال پوچھے |
تو تم سمجھ لو |
یقیں تمہارا |
اب ہوچکا ہے یقینِ محکم |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 30, 2009
یقینِ محکم
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment