خالی پیٹ |
میں ایک دفتر کی سیڑھیوں سے اُتر رہا تھا وہ چڑھ رہی تھی |
میں ہوکے مایوس آرہا تھا وہ لے کے اُمّید جارہی تھی |
اگرچہ دیکھا تھا ایک دوجے نے ایک دوجے کو ہنس کے لیکن |
نہ میں نے اس سے کہا نہ جاؤ |
نہ اس نے سوچا میرا پلٹنا |
میں کیسے کہتا نہ جاؤ اوپر |
ہر ایک در پہ لکھا ہوا ہے 'کوئی خالی جگہ نہیں ہے' ۔ |
میں منتظر تھا کہ دو منٹ میں |
وہ مڑ کے واپس ہے آنے والی |
مگر وہ کچھ دیر سے جو لوٹی |
تو اشک آنکھوں سے بہہ رہے تھے |
پہ چہرہ جیسے چمک رہا تھا |
مجھے جو دیکھا تو ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کے آؤ مجھے پتا ہے |
تمہاری آنکھوں کا سب تجسّس ۔ سوال بھی میں نے پڑھ لیے ہیں |
وہاں جگہ تھی نہ کوئی خالی |
مگر خریدار تو سبھی تھے |
میں بھوک سے بلبلا رہی ہوں |
اب آؤ تھوڑا سا پیٹ بھر لیں |
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 30, 2009
خالی پیٹ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment