تعلّق کیا ہوا قائم کسی سے محبّت ہوگئی ہے زندگی سے |
|
تبسّم میں جو دکھ ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بہہ جائیں نہ آنکھوں کی نمی سے |
|
نظر حوروں پہ سر سجدہِ میں زاہد یہی اخلاص ہے کیا بندگی سے |
|
ہمارے گھر ہے تنہائی کا موسم ہمیں کیا موسموں کی دلکشی سے |
|
تجھے سمجھاؤں کیا ناصح کہ تیرا تعارّف ہی نہیں دل کی لگی سے |
|
یہ حسرت ساتھ ہی جائے گی شاید محبّت بے غرض ملتی کسی سے |
|
اُٹھا دستِ طلب جب بھی ہمارا لڑائی چھڑ گئی اپنی خودی سے |
|
اندھیرا شہر میں کیسے نہ کرتا اُسے ڈر لگ رہا تھا روشنی سے |
|
بہادو آنکھ سے اشعؔر غمِ دل ٹھہر جائے نہ اشکوں کی کمی سے |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Wednesday, April 29, 2009
تعلّق کیا ہوا قائم کسی سے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment