
| تعلّق کیا ہوا قائم کسی سے محبّت ہوگئی ہے زندگی سے |
|
|
| تبسّم میں جو دکھ ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بہہ جائیں نہ آنکھوں کی نمی سے |
|
|
| نظر حوروں پہ سر سجدہِ میں زاہد یہی اخلاص ہے کیا بندگی سے |
|
|
| ہمارے گھر ہے تنہائی کا موسم ہمیں کیا موسموں کی دلکشی سے |
|
|
| تجھے سمجھاؤں کیا ناصح کہ تیرا تعارّف ہی نہیں دل کی لگی سے |
|
|
| یہ حسرت ساتھ ہی جائے گی شاید محبّت بے غرض ملتی کسی سے |
|
|
| اُٹھا دستِ طلب جب بھی ہمارا لڑائی چھڑ گئی اپنی خودی سے |
|
|
| اندھیرا شہر میں کیسے نہ کرتا اُسے ڈر لگ رہا تھا روشنی سے |
|
|
| بہادو آنکھ سے اشعؔر غمِ دل ٹھہر جائے نہ اشکوں کی کمی سے |
|
|
No comments:
Post a Comment