|
کہاں کا شاہ، کہاں کا امیر ہونا تھا ہمیں تو تیری گلی کا فقیر ہونا تھا |
|
ثبوت اُن سے محبّت کا خود ہی مل جاتا تجھے بھی داعیء حق اور نذیر ہونا تھا |
|
گدائے شہر مدینہ بھی ٹھیک ہے لیکن مرا مقام غلامِ حقیر ہونا تھا |
|
ہوئی ہے آبلہ پائی نصیب یوں کہ مجھے محبّتوں کے جہاں کا سفیر ہونا تھا |
|
ترا یہ سب و شتم تجھ کو خود بُرا لگتا ذرا سی دیر کو پیشِ ضمیر ہونا تھا |
|
قدم بہک گئے لغزش ہوئی سزا بھگتو تمہارےقابو میں اپنا شریر ہونا تھا |
|
مُریدِ نفس ہوئے جارہے ہو جب کہ تمہیں اب ایسی عمر میں اک شخصِ پیر ہونا تھا |
|
خدا سے تجھ کو اگر برکتوں کی خواہش تھی کسی کے حق میں تجھے دستگیر ہونا تھا |
|
مَنُش تھے ہم بڑے آزاد قسم کے اشعؔر پر ایک دن تو ہمیں بھی اسیر ہونا تھا |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Wednesday, April 29, 2009
کہاں کا شاہ، کہاں کا امیر ہونا تھا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment