
| عجب تھا حرفِ طلب احتساب سے پہلے کئی سوال اُٹھے اک جواب سے پہلے |
|
|
| خیال سود و زیاں خوب ہے مگر ناصح بہت ہے کارِ جنوں اس حساب سے پہلے |
|
|
| کوئی نہ باندھنا تمہید جب بھی سچ لکھو ہے پیش لفظ مُلمّع کتاب سے پہلے |
|
|
| گزر کے آگیا دریا سے اور پیاسا ہوں کہاں تھا میرا تعارف سراب سے پہلے |
|
|
| نہیں ہے اس کی عطا پر یقیں تو حرفِ دُعا ہے بارشوں کی تمنّا سحاب سے پہلے |
|
|
| گلوں کی سمت بہت دیکھ بھال کر بڑھنا کہ خار ہوتے ہیں اکثر گلاب سے پہلے |
|
|
| بساطِ زندگی کیا ہے نہ پوچھتے اشعؔر مگر ملے ہی کہاں تم حباب سے پہلے |
|
|
No comments:
Post a Comment