
بات تھی پھول کی کہانی تک بڑھ کے پہنچی تری جوانی تک |
|
خواہشِ زندگی تو ہے لیکن جانِ جاں تیری ضوفشانی تک |
|
جاہِ دنیا ہے تیرا ساتھ ہی کیا اور ہے بھی تو دارِ فانی تک |
|
وہ مرےدوست جن پہ تکیہ تھا گرگئے وہ بھی آنا کانی تک |
|
دے کے دل ہم نے کب یہ سوچا تھا گم وہ کردے گا یہ نشانی تک |
|
شوقِ دریا تو ہے سبھی کو مگر کون جاتا ہے گہرے پانی تک |
|
کوئی شکوہ ہے گر تو کہہ ڈالو بات پہنچے نہ بدگمانی تک |
|
استعاروں کا کیا کروں اشعؔر وہ نہیں جائیں گے معانی تک |
|
No comments:
Post a Comment