دل فریبی کے لیے منظر بھی دلکش چاہیے توڑنے کو دل مرا پتھر بھی دلکش چاہیے |
|
ہاں یہ ممکن ہے کہ میں پی کر بہک جاؤں مگر صرف مئے کافی نہیں ساغر بھی دلکش چاہیے |
|
ہر جگہ مجھ سے جبیں سائی کی امّیدیں نہ رکھ آستاں کہدوں جسے وہ در بھی دلکش چاہیے |
|
چین سے سونے نہیں دیتی شکن آلودگی صرف کمرہ ہی نہیں بستر بھی دلکش چاہیے |
|
ہم نے مانا آپ کے اندر چراغاں ہے مگر اک دیا اثبات کو باہر بھی دلکش چاہیے |
|
مل تو سکتا ہے لقب شاہین کا لیکن حضور التزام ِجُراَت و شہپر بھی دلکش چاہیے |
|
ہے غُبارِ کارواں پیچھے اندھیرا سامنے اور امیرِ کارواں اس پر بھی دلکش چاہیے |
|
زخمِ تازہ سرخرو لگتے ہیں اوپر سے سبھی زخمِ دل کو اک کسک اندر بھی دلکش چاہیے |
|
اوک سے پینے میں بھی اک لطف ہے لیکن مجھے صاف سا پانی بھی اور گاگر بھی دلکش چاہیے |
|
یوں غزل کہنے کو اک صحرا میں اشعؔر کی طرح دردِ دل کے ساتھ اک دلبر بھی دلکش چاہیے |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Wednesday, April 29, 2009
دل فریبی کے لیے منظر بھی دلکش چاہیے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment