میرے دکھ سے جو بے خبر ٹھہرا اک وہی شخص چارہ گر ٹھہرا |
|
بام و در بے شمار دیکھ لیے گھر تو بس ایک اپنا گھر ٹھہرا |
|
داستاں ہوگئی ہے پھر تسلیم واقعہ پھر نہ معتبر ٹھہرا |
|
ظلم کرنا بُرا ہے سہنا بھی کیا کروں میں کہ بے سپر ٹھہرا |
|
دور ہوکر بھی میرا پاک وطن جاں فزا سایہء شجر ٹھہرا |
|
مسجدوں میں بنادیےمقتل بے نظیر آپ کا ہُنر ٹھہرا |
|
آپ منصف ہیں اپنا کام کریں کیا ہوا گر وہ بااثر ٹھہرا |
|
آپ اورشکوۂ وفا اشعؔر کیا وفا دار کوئی گھر ٹھہرا |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Wednesday, April 29, 2009
میرے دکھ سے جو بے خبر ٹھہرا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment