
| سفر میں تھا تو فریبِ نظر گماں ٹھہرا سراب ہوگیا دریا گماں جہاں ٹھہرا |
|
|
| اے زندگی مجھے تجھ سے بڑی امّیدیں تھیں پر اعتبار ہی تیرا دھواں دھواں ٹھہرا |
|
|
| تمہارے ہاتھ کی لرزش نے راز کھول دیا تمہارا نامۂ تردید بے اماں ٹھہرا |
|
|
| تری گلی کا وہ پتھر گلاب تھا شاید کہ جس کا زخم بھی مثلِ بہارِ جاں ٹھہرا |
|
|
| تمہاری بزم میں آکر بھی تم سے دور رہے یہ ضبطِ دل کے لیے خوب امتحاں ٹھہرا |
|
|
| تمہارے ساتھ جو دو چار گام چل بیٹھا کہاں ملی اُسے منزل وہ پھر کہاں ٹھہرا |
|
|
| نگاہ ملتے ہی بے خود کسی کا ہوجانا یہ جذبِ دل ہی تو اشعؔر متاعِ جاں ٹھہرا |
|
|
No comments:
Post a Comment