خرد کی پاسبانی میں دوانے دیکھتا ہوں حقیقت جانتا ہوں اور فسانے دیکھتا ہوں |
حیات آگیں رہا ہے جن کی تعبیروں کا منظر ابھی تک میں وہی سپنے سہانے دیکھتا ہوں |
کوئی تعدادِ حمدِ رب مقرّر کیسے کردوں ہر اک تسبیح میں گنتی کے دانے دیکھتا ہوں |
تری نظر اغیار پر اُٹھتی ہے جب بھی میں اپنے دل پہ تیروں کے نشانے دیکھتا ہوں |
کسی راوی پہ اپنا فیصلہ دینے سے پہلے میں اُس کی داستاں کے تانے بانے دیکھتا ہوں |
پلٹ کر دیکھنے سے ڈر ہے پتّھر ہو نہ جاؤں میں رکھ کر سامنے گزرے زمانے دیکھتا ہوں |
یقیں سا ہے کہ تعبیریں بھی دیں گے خواب میرے سویرا ہوتے ہی اُٹھ کر سرہانے دیکھتا ہوں |
میں جب بھی اعتبارِ زندگی کرتا ہوں دم بھر اجل کے ان گنت رنگیں بہانے دیکھتا ہوں |
بھلا کیا کام آیا وقت کا مرہم بھی اشعؔر گُلِ تازہ کی طرح دُکھ پرانے دیکھتا ہوں |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
خرد کی پاسبانی میں دوانے دیکھتا ہوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment