
| اگرچہ کہنے کو بے شک سبھی کے ساتھ رہا میں جان و دل سے مگر روشنی کے ساتھ رہا |
| جو میری روح مری زندگی کے ساتھ رہا میں ایک عمر اسی اجنبی کے ساتھ رہا |
| ہمارے درد کا ساتھی بھی جس کو ہونا تھا وہ اپنی خواہشِ لذّت کشی کے ساتھ رہا |
| بس ایک رات ہی مہماں رہا تھا چاند مرا میں ساری عمر مگر چاندنی کے ساتھ رہا |
| نہ بھول جاتا میں کیسے عداوتیں تیری تیرا خیال ہی بس دوستی کے ساتھ رہا |
| وطن میں اب کے سکونت کا دائمی تھا خیال میں چار دن بھی مگر بے کلی کے ساتھ رہا |
| رہا ہے ظلم کی وادی میں پر دلِ اشعؔر لگے ہے ایسا کہ بس آشتی کے ساتھ رہا |
|
|
No comments:
Post a Comment