اگرچہ کہنے کو بے شک سبھی کے ساتھ رہا میں جان و دل سے مگر روشنی کے ساتھ رہا |
جو میری روح مری زندگی کے ساتھ رہا میں ایک عمر اسی اجنبی کے ساتھ رہا |
ہمارے درد کا ساتھی بھی جس کو ہونا تھا وہ اپنی خواہشِ لذّت کشی کے ساتھ رہا |
بس ایک رات ہی مہماں رہا تھا چاند مرا میں ساری عمر مگر چاندنی کے ساتھ رہا |
نہ بھول جاتا میں کیسے عداوتیں تیری تیرا خیال ہی بس دوستی کے ساتھ رہا |
وطن میں اب کے سکونت کا دائمی تھا خیال میں چار دن بھی مگر بے کلی کے ساتھ رہا |
رہا ہے ظلم کی وادی میں پر دلِ اشعؔر لگے ہے ایسا کہ بس آشتی کے ساتھ رہا |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
اگرچہ کہنے کو بے شک سبھی کے ساتھ رہا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment