یادیں تمہاری آج بھی یوں دشتِ جاں میں ہیں آباد جیسے بستیاں خالی مکاں میں ہیں |
رکھیں مزاجِ عشق کو ہم کس کے سامنے مدہوش عام لوگ بھی سودوزیاں میں ہیں |
دستِ جہاں سے لینے مصائب نہ جائیے درماں تمام درد کے اپنے جہاں میں ہیں |
کیا منصفی ہے بے کس و مفلس ہے دار پر اور قاتلوں کے نام پسِ زراماں میں ہیں |
ہے آزمائشوں کا تسلسل کچھ اس طرح جیسے ازل سے تا بہ ابد امتحاں میں ہیں |
بس فرقت و وصال نہیں اس کی داستاں دنیا کےاور غم بھی دل بے کراں میں ہیں |
دیکھی ہوئی ہیں آتشِ عارض کی سرخیاں شعلے بھی دیکھ لیں گے جوبرقِ تپاں میں ہیں |
جب سے لُٹی بہارِ چمن دیکھتے ہیں ہم اشعؔر ترے سُخن بھی حصارِ خزاں میں ہیں |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
یادیں تمہاری آج بھی یوں دشتِ جاں میں ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment