
| دل کا ہر داغ لہو دے کے جلا لیتا ہوں میں شبِ غم کو ستاروں سے سجا لیتا ہوں |
| کوئی پل جب کسی پہلو مجھے دیتا ہے قرار درد کی لو میں اسی سمت بڑھالیتا ہوں |
| آتشِ عشق تو اشکوں سے بھڑکتی ہے مگر اک ذرا آتشِ جذبات بجھالیتا ہوں |
| شب ڈھلے صبح کے تارے نے یہ پوچھا اکثر کیا تری آنکھ سے میں نیند چُرا لیتا ہوں |
| سرگراں تم نہ پھرو ایذارسانی کو مری میں تو خود گردشِ ایّام کو جالیتا ہوں |
| ناخدا تجھ پہ ہی اک تکیہ نہیں ہے میں تو موجِ برہم سے بھی ساحل کا پتا لیتاہوں |
| کون دیتا ہے تجھے طرزِ مسیحائی نئے میں ہی ہر درد ترا جاں سے لگا لیتا ہوں |
| ایک مانوس مہک جب بھی صبالاتی ہے ان کو انفاس کی آغوش میں پالیتا ہوں |
| ڈال کر چہرے پہ اشعؔر میں تبسّم کی نقاب کربِ تنہائی کو دنیا سے چھُپا لیتا ہوں |
|
|
No comments:
Post a Comment