دل کا ہر داغ لہو دے کے جلا لیتا ہوں میں شبِ غم کو ستاروں سے سجا لیتا ہوں |
کوئی پل جب کسی پہلو مجھے دیتا ہے قرار درد کی لو میں اسی سمت بڑھالیتا ہوں |
آتشِ عشق تو اشکوں سے بھڑکتی ہے مگر اک ذرا آتشِ جذبات بجھالیتا ہوں |
شب ڈھلے صبح کے تارے نے یہ پوچھا اکثر کیا تری آنکھ سے میں نیند چُرا لیتا ہوں |
سرگراں تم نہ پھرو ایذارسانی کو مری میں تو خود گردشِ ایّام کو جالیتا ہوں |
ناخدا تجھ پہ ہی اک تکیہ نہیں ہے میں تو موجِ برہم سے بھی ساحل کا پتا لیتاہوں |
کون دیتا ہے تجھے طرزِ مسیحائی نئے میں ہی ہر درد ترا جاں سے لگا لیتا ہوں |
ایک مانوس مہک جب بھی صبالاتی ہے ان کو انفاس کی آغوش میں پالیتا ہوں |
ڈال کر چہرے پہ اشعؔر میں تبسّم کی نقاب کربِ تنہائی کو دنیا سے چھُپا لیتا ہوں |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
دل کا ہر داغ لہو دے کے جلا لیتا ہوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment