
| درد تقسیم کے امکاں سے بچا رکھا ہے اپنا سرمایۂ کُل دل میں چھُپا رکھا ہے |
| وہ پلٹ آیا تو سینہِ سے لگالیں گے اُسے جانِ من چھوڑیے ان باتوں میں کیا رکھا ہے |
| آؤ آرائشِ جاں کچھ تو بدل دیں مل کر کتنی مُدّت سے غمِ ہِجَر بسا رکھا ہے |
| بھولنا چاہوں تو کچھ اور اُلجھ جاتا ہوں اُس نے یادوں کا عجب جال بچھا رکھا ہے |
| تاکہ دنیا تری آمد کا نہ پاجائے سُراغ نام آہٹ کا تری بادِ صبا رکھا ہے |
| دل کو میرے دلِ ویراں تو نہ کہیے صاحب میں نے تو درد کا اک شہر بسا رکھا ہے |
| شامل زادِ سفررکھتے تھے تو آساں تھا سفر رات کا ساتھ ہے اور گھر میں دیا رکھا ہے |
| کیا بجُھا پائے گی تو میری محبّت کا چِراغ اے ہوا دیکھ تری زد پہ جلا رکھا ہے |
| بے وفا کیسے کہوں میں کہ سرِ بزم ابھی کل ہی تو نام ترا رشکِ وفا رکھا ہے |
| کوئی منصف نظر آئے تو میں پوچھوں اشعؔر کیوں مرے شہر کو مقتل سا بنا رکھا ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment