دل کو جب خون رلا دو تو غزل ہوتی ہے دار پر خود کو سجادو تو غزل ہوتی ہے |
دل کے لُٹ جانے کی روداد سرِ بزم انہیں آنکھوں آنکھوں میں سُنادو تو غزل ہوتی ہے |
ہو ترنّم وہ تمہارا کہ تبسّم بہ سکوت ایک دیپک بھی جلا دو تو غزل ہوتی ہے |
اپنی پُر شوق نگاہوں کی حرارت سے اگر تم کوئی غُنچہ کھلادو تو غزل ہوتی ہے |
جنبش ابرو کا ادنیٰ سا اشارہ پاکر خود کو زہر اب پلا دو تو غزل ہوتی ہے |
داغِ دل زخمِ جگر پاؤں کے چھالے آنسو سب مسیحا سے چھُپا دو تو غزل ہوتی ہے |
ضبطِ دل پر جو نہ رہ جائے تصرّف باقی ہستی ء دل ہی مٹا دو تو غزل ہوتی ہے |
مسکراتی ہوئی ان شوخ نگاہوں کو کبھی کوئی پیاری سی سزا دو تو غزل ہوتی ہے |
دل میں جب اس کے کوئی جیت کا امکاں نہ رہے دفعتاً خود کو ہرا دو تو غزل ہوتی ہے |
جو تمہیں دے کے چلا ہِجَرِ مُسلسل کی سزا اس کو جینے کی دعا دو تو غزل ہوتی ہے |
زُلف سے اٹھتی ہوئی خوشبو کی لو پر اشعؔر گرم سانسوں کو جمادو تو غزل ہوتی ہے |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
دل کو جب خون رلا دو تو غزل ہوتی ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment