ابھی مرہون لب اک بات بھی باہم نہیں ہے مگر جو ان کہی سی ہوگئی ہے کم نہیں ہے |
رُکے آنسو چھلک پڑتے ہیں جب بھی سوچتا ہوں مرے گھر کی پلک میرے لیے کیوں نم نہیں ہے |
سرِ مقتل تو دل پتھر کے تھے لیکن یہاں تو کہیں مقتل سے باہر بھی صفِ ماتم نہیں ہے |
مجھے کیا نیند آئی وقت نے دنیا بدل دی میں جس عالم میں سویا تھا یہ وہ عالم نہیں ہے |
یہ شہرِ علم و دانش ہے زباں کو بند رکھنا ہر اک پیر و جواں اس شہر کا حاتم نہیں ہے |
ہم اک کمرے میں ہیں اور اجنبیت درمیاں ہے مری اک بات پر بھی آج وہ برہم نہیں ہے |
جو خود ان کے لگائے نشتروں کے زخم بھر دے مرے چارہ گروں کے پاس وہ مرہم نہیں ہے |
نہ لافانی ہو تم اشعؔر نہ سقراطِ زمانہ تمہارے ساغرِ فن میں کوئی بھی سم نہیں ہے |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 23, 2009
ابھی مرہون لب اک بات بھی باہم نہیں ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment