
| ہر اک ذی ہوش پر اب تو عیاں ہے رات کا موسم اب اپنے شہر سے جاتا کہاں ہے رات کا موسم |
|
|
| امیرِ شہر گر پوچھے کہاں ہے رات کا موسم تو کہنا بے ضمیروں سے نہاں ہے رات کا موسم |
|
|
| نہ سورج کی حرارت ہے نہ بادل اور نہ بارش ہے چمن کیسے پھلے پھولے خزاں ہے رات کا موسم |
|
|
| زبانیں کاٹ دی جاتی ہیں جن کی غور سے دیکھو انہی کی بے زبانی میں بیاں ہے رات کا موسم |
|
|
| سبھی مہمانِ مقتل منتظر ہیں اپنی باری کے اور اک سفّاک قاتل میزباں ہے رات کا موسم |
|
|
| گلا سچّائی کا اندازِ مثبت گھونٹ کیسے دے سویرا کیسے لکھ ڈالوں رواں ہے رات کا موسم |
|
|
| بری الذمّہ تو میں بھی نہیں میں نے بھی روکا تھا میں سمجھا، دو گھڑی کا مہماں ہے رات کا موسم |
|
|
| ہر اک موسم مزاجِ وقت کا مرہون ہے اشعؔر جہاں کل صبحِ روشن تھی وہاں ہے رات کا موسم |
|
|
No comments:
Post a Comment