حِرصِ دنیا اگر نہیں ہوتی زندگی در بہ در نہیں ہوتی |
|
زندگی گر سفر نہیں ہوتی چین سے بھی بسر نہیں ہوتی |
|
ہم پرستار ہیں ہنر کے مگر صرف شہرت ہنر نہیں ہوتی |
|
آج تو جاگ اُٹھو خدا کے لیے روز دیکھو سحر نہیں ہوتی |
|
دُکھ کے مانوس موسموں کی بیل کس کی دیوار پر نہیں ہوتی |
|
دھوپ اوڑھے بغیر دنیا میں کوئی شے بھی شجر نہیں ہوتی |
|
آسماں کیوں یہ سوچتا ہے مجھے خواہشِ بال و پر نہیں ہوتی |
|
دسترس میں کوئی بھی شے اپنی باعثِ کرّوفر نہیں ہوتی |
|
آتشِ عشق کم تو ہوتی ہے ہائے ٹھنڈی مگر نہیں ہوتی |
|
گر یقین عطا نہ ہو اشعؔر التجا پُر اثر نہیں ہوتی |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Thursday, April 30, 2009
حِرصِ دنیا اگر نہیں ہوتی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment