

| درد کی اب کچھ دوا کرجائیے یا دل ِبسمل فنا کرجائیے |
|
|
| کچھ تو تخفیفِ سزا چاہیے قیدِ ہستی سے رہا کرجائیے |
|
|
| یوں نہ رستہِ پر رہیں آنکھیں مری کوئی تو ایسی دعا کرجائیے |
|
|
| عشق پر احسان ہوگا آپ کا چاک مجنوں کی قبا کرجائیے |
|
|
| اک چنگاری ہو ا کو دیجیے آپ تو بس ابتدا کرجائیے |
|
|
| ساقیا اک جام دے کر شیخ کو ہوش کی باتیں عطا کرجائیے |
|
|
| آئیے تو کیجیے شکوے ہزار جائیے تو دل ملا کر جائیے |
|
|
| کون کہتا ہے کہ تاریکی تمام آپ ہی یکسر مٹا کر جائیے |
|
|
| کون کہتا ہے کہ دیجیے آفتاب صرف روشن اک دیا کرجائیے |
|
|
| یہ بھی اےاشعؔر اگر ممکن نہیں ناامّیدی کو سوا کرجائیے |
|
|
No comments:
Post a Comment