درد کی اب کچھ دوا کرجائیے یا دل ِبسمل فنا کرجائیے |
|
کچھ تو تخفیفِ سزا چاہیے قیدِ ہستی سے رہا کرجائیے |
|
یوں نہ رستہِ پر رہیں آنکھیں مری کوئی تو ایسی دعا کرجائیے |
|
عشق پر احسان ہوگا آپ کا چاک مجنوں کی قبا کرجائیے |
|
اک چنگاری ہو ا کو دیجیے آپ تو بس ابتدا کرجائیے |
|
ساقیا اک جام دے کر شیخ کو ہوش کی باتیں عطا کرجائیے |
|
آئیے تو کیجیے شکوے ہزار جائیے تو دل ملا کر جائیے |
|
کون کہتا ہے کہ تاریکی تمام آپ ہی یکسر مٹا کر جائیے |
|
کون کہتا ہے کہ دیجیے آفتاب صرف روشن اک دیا کرجائیے |
|
یہ بھی اےاشعؔر اگر ممکن نہیں ناامّیدی کو سوا کرجائیے |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Wednesday, April 29, 2009
درد کی اب کچھ دوا کرجائیے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment