
| یہ اجنبی سی انوکھی سزا نہ دو مجھ کو |
| اُٹھا کے تم کفِ خنجر دعا نہ دو مجھ کو |
|
|
| نہ تھی جو میرے لیے وہ وفا نہ دو مجھ کو پلا دو زہر ، پہ جھوٹی دوا نہ دو مجھ کو |
|
|
| ہے مجھ کو شوقِ تلاطم بھی عزمِ ساحل بھی تمہارا کیا ہے ارادہ بتا نہ دو مجھ کو |
|
|
| یہ کیا کہا کہ تمہیں جاں بھی دے نہیں سکتا اب اپنی آنکھ سے اتنا گرا نہ دو مجھ کو |
|
|
| بجھا ہوا سا دیا تم کو لگ رہا ہوں اگر ذرا سا چھو کے مجھے تم جلا نہ دو مجھ کو |
|
|
| نہ مجھ میں ظرفِ سمندر، نہ شورِ دریا ہے کسی مرض کی بھی یارو دوا نہ دو مجھ کو |
|
|
| پلٹ کے آئی ہے آواز خود مری یا تم یہ کہہ رہے ہو کہ اشعؔر صدا نہ دو مجھ کو |
|
|
No comments:
Post a Comment