
|
|
| نہ کوئی دریا نہ دریا کے خواب دیکھےہیں جدھر نِگاہ اُٹھائی سراب دیکھے ہیں
|
|
|
| تمہیں نہ دیکھا تھا جب تک تو سہل تھا جینا تمہاری راہ میں غم بے حساب دیکھے ہیں |
|
|
| بنا رہا تھا میں بیٹھا طویل منصوبے کہ میں نے مٹتے ہوئے کچھ حباب دیکھے ہیں |
|
|
| وہ جس نے ہم پہ محبّت کی بارشیں کی ہیں اُسی نگاہ میں لاکھوں حجاب دیکھے ہیں |
|
|
| قرارِ امن، محبّت، وفا، نویدِ سحر یہ کیا ہوا ہے مجھے، کیسے خواب دیکھے ہیں |
|
|
| تمہاری قوّتِ زر ہم سے ہار جائے گی تمہارے جیسے ہزاروں جناب دیکھےہیں |
|
|
| کسے بتاتے ہو اشعؔر یہ فرقِ ملّت و قوم جہاں نے قوموں کے لائے عذاب دیکھے ہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment