
|
|
| نہ میکدہ ہی نہ ساقی نہ جام کو بدلو بدل سکو تو اساسِ نظام کو بدلو |
|
|
| اگر ہے واقعی منزل کی آرزو تم کو تم اپنے طرزِ رہِ ناتمام کو بدلو |
|
|
| گرا نہ دے تمہیں اتنا تپاک سے ملنا خودی کے واسطہِ طرزِ سلام کو بدلو |
|
|
| ہے زندہ قوموں کی صف میں اگر تمہیں رہنا تو اپنی ذات کے اندر غلام کو بدلو |
|
|
| تمہیں پسند نہیں گر ملال و مئے نوشی تو آج آکے سرِ شام، شام کو بدلو |
|
|
| مجھے گلے سےلگالو یہ پوجنا چھوڑو میں دیوتا نہیں میرے مقام کو بدلو |
|
|
| قبولِ عام ہے مطلوب گر تمہیں اشعؔر تمام تلخیء صدقِ کلام کو بدلو |
|
|
No comments:
Post a Comment