|
نہ میکدہ ہی نہ ساقی نہ جام کو بدلو بدل سکو تو اساسِ نظام کو بدلو |
|
اگر ہے واقعی منزل کی آرزو تم کو تم اپنے طرزِ رہِ ناتمام کو بدلو |
|
گرا نہ دے تمہیں اتنا تپاک سے ملنا خودی کے واسطہِ طرزِ سلام کو بدلو |
|
ہے زندہ قوموں کی صف میں اگر تمہیں رہنا تو اپنی ذات کے اندر غلام کو بدلو |
|
تمہیں پسند نہیں گر ملال و مئے نوشی تو آج آکے سرِ شام، شام کو بدلو |
|
مجھے گلے سےلگالو یہ پوجنا چھوڑو میں دیوتا نہیں میرے مقام کو بدلو |
|
قبولِ عام ہے مطلوب گر تمہیں اشعؔر تمام تلخیء صدقِ کلام کو بدلو |
|
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Wednesday, April 29, 2009
نہ میکدہ ہی نہ ساقی نہ جام کو بدلو
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment