Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید

Thursday, April 30, 2009

قلم جو بازار میں نہیں ہے







قلم جو بازار میں نہیں ہے




وہ خامہء انمول تھا جو پہلے

محبّتوں کو جو لکھ رہا تھا

صریر جس کی تھی جل ترنگ سی

وہ جس کی دھن پر مرے وطن میں

محبّتیں رقص کررہی تھیں

قلم جو تنقید کررہا تھا

قلم وہ تعمیر کررہا تھا

قلم جو تحریر کررہا تھا

وہ صرف تخلیق کررہا تھا

مگر نہ جانے یہ کیا ہوا ہے

ہوا اک ایسی چلی وطن میں

ستونِ خامہ گراگئی جو

ستوں یہ چوتھا گرا ہے جب سے

قلم کا بازار گرگیا ہے

بدیسیوں نے قلم ہمارے

خرید رکھے ہیں کوڑیوں میں

قلم جو تھا ایک سیفِ صیقل

جو کاٹ دیتی تھی سب اندھیرے

وہی تو ہے آج کند خنجر

نہ رحم سے ہے جسے علاقہ

نہ نور سے ہے جسے محبّت

نہ حرفِ اُلفت سے جس کو نسبت

جو بے ضمیروں کے ہاتھ میں ہے

قلم وہ ایسی ہےبادِ صرصر

بجھا دیے ہیں چراغ جس نے

اندھیرا پھیلا دیا ہے جس نے

کہ جس نے پامال کردیا ہے

تمام گلشن محبّتوں کا

مگر زمانہ یہ جان رکھے

کئی چراغِ وفا ہیں ایسے

جو آندھیوں میں بھی جل رہے ہیں

جو ہر اندھیرے سے لڑرہے ہیں

یہی وہ کارِ جنوں ہے شاید

خِرَد کی جس سے ٹھنی ہوئی ہے

اسی جنوں سے ہی بات اپنی

ابھی تلک کچھ بنی ہوئی ہے

انہی چراغوں کے دم سے شاید

ابھی امّیدوں کی روشنی ہے

بجھا بھی دیں گر انہیں ہوائیں

تو ان کے پیچھے ملیں گے ایسے

نقوشِ پا کہکشاں کی صورت

جو منزلوں کا سراغ دیں گے

یہی وہ کچھ دستِ حق ہیں باقی

کہ جن کے ہاتھوں میں وہ قلم ہے

قلم جو بازار میں نہیں ہے


No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for more Justuju Projects