قلم جو بازار میں نہیں ہے
|
وہ خامہء انمول تھا جو پہلے |
محبّتوں کو جو لکھ رہا تھا |
صریر جس کی تھی جل ترنگ سی |
وہ جس کی دھن پر مرے وطن میں |
محبّتیں رقص کررہی تھیں |
قلم جو تنقید کررہا تھا |
قلم وہ تعمیر کررہا تھا |
قلم جو تحریر کررہا تھا |
وہ صرف تخلیق کررہا تھا |
مگر نہ جانے یہ کیا ہوا ہے |
ہوا اک ایسی چلی وطن میں |
ستونِ خامہ گراگئی جو |
ستوں یہ چوتھا گرا ہے جب سے |
قلم کا بازار گرگیا ہے |
بدیسیوں نے قلم ہمارے |
خرید رکھے ہیں کوڑیوں میں |
قلم جو تھا ایک سیفِ صیقل |
جو کاٹ دیتی تھی سب اندھیرے |
وہی تو ہے آج کند خنجر |
نہ رحم سے ہے جسے علاقہ |
نہ نور سے ہے جسے محبّت |
نہ حرفِ اُلفت سے جس کو نسبت |
جو بے ضمیروں کے ہاتھ میں ہے |
قلم وہ ایسی ہےبادِ صرصر |
بجھا دیے ہیں چراغ جس نے |
اندھیرا پھیلا دیا ہے جس نے |
کہ جس نے پامال کردیا ہے |
تمام گلشن محبّتوں کا |
مگر زمانہ یہ جان رکھے |
کئی چراغِ وفا ہیں ایسے |
جو آندھیوں میں بھی جل رہے ہیں |
جو ہر اندھیرے سے لڑرہے ہیں |
یہی وہ کارِ جنوں ہے شاید |
خِرَد کی جس سے ٹھنی ہوئی ہے |
اسی جنوں سے ہی بات اپنی |
ابھی تلک کچھ بنی ہوئی ہے |
انہی چراغوں کے دم سے شاید |
ابھی امّیدوں کی روشنی ہے |
بجھا بھی دیں گر انہیں ہوائیں |
تو ان کے پیچھے ملیں گے ایسے |
نقوشِ پا کہکشاں کی صورت |
جو منزلوں کا سراغ دیں گے |
یہی وہ کچھ دستِ حق ہیں باقی |
کہ جن کے ہاتھوں میں وہ قلم ہے |
قلم جو بازار میں نہیں ہے |
|
No comments:
Post a Comment