
|
|
| اس کو خیالِ چاکِ جگر لے کے آگیا کرنے رفو وہ تارِ نظر لے کے آگیا |
|
|
| پلکوں پہ جھلملاتے گُہر لے کے آگیا اک کہکشاں برائے سفر لے کے آگیا |
|
|
| اب شہر میں سُکونِ شب غم کہاں رہا وہ شخص بے نظیر سحر لے کے آگیا |
|
|
| اس کے قدم بھی تھام رہی تھی انا مگر اس کو مری دعا کا اثر لے کے آگیا |
|
|
| جھونکا ہوا کا کرگیا مجھ کو بھی عطر بیز خوشبو ترے بدن کی اِدھر لے کے آگیا |
|
|
| پلکوں میں تیرے حسن کو کیا میں نے رکھ دیا تنکوں کے آشیاں میں شرر لے کے آگیا |
|
|
| ہجرت کا اذن ہوگیا وجہِ نوازشات وہ رحمتوں کا شاہ نگر لے کے آگیا |
|
|
| عشق خدا اور حدِ اطاعت تو دیکھیے قربان کرنے لختِ جگر لے کے آگیا |
|
|
| اک اک نفس نے سونپ دیا اپنے آپ کو وہ کیا وعید زیرِ شجر لے کے آگیا |
|
|
| شہرِ بتاں نے اور بھی تنہا کیا مجھے اشعؔر غمِ وصال کدھر لے کے آگیا |
|
|
No comments:
Post a Comment