سلام و کلام (عرضِ مُصنّف) سلام دوستو: ۔ یہاں میں آپ سے براہِ راست کچھ گفتگو کررہا ہوں۔ میرا تعلّق یوپی انڈیا کے ایک غریب لیکن وضعدار و خود دار سیّد گھرانہِ سے ہے۔ میرا نام سّد منیف اشعر ملیح آبادی ہے اور میرے مرحوم و مغفور والد ماجد کا اسم گرامی سید محمد شریف ہے، اور آپ “اثر” تخلّص فرماتے تھے۔ ان کا ایک خوب صورت شعر میں آپ کی نظر کرتا ہوں: ۔ اُنہیں ہر قدم پر اس لیے آواز دیتا ہوں نہ جانے کس قدم پر موت کا پیغام آجائے میری والدہ مرحومہ و مغفورہ کا نام سیّدہ رضیہ النساء ہے۔ اسے میری انتہائی بدقسمتی پر محمول سمجھیے کہ میری عمر ابھی صرف دو برس تھی جب میری والدہ ماجدہ رحلت فرما گئیں۔ اس رنجیدہ امر کی وجہ سے مجھے یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ “ماں کی محبت” کیا ہوتی ہے۔ ایسے شخص کے لیے بے لوث محبت سے محرومی شاید امرِ یقینی ہوجاتا ہے۔ اور اسے کہنا پڑتا ہے کہ: ۔۔ یہ حسرت ساتھ ہی جائے گی شاید محبت بے غرض ملتی کسی سے
میری تاریخِ پیدائش کے سلسلہِ میں جو یاد داشت میسّر آسکی، اس کے تحت میں 2 اگست 1945 کو پیدا ہوا تھا، اور یہی تاریخ میری تمام اسناد میں درج ہے۔ تاہم چند بزرگوں نے میری تاریخ پیدائش کو 4 نومبر 1946 بھی قرار دیا۔ مگر میں 2 اگست 1945 کو ہی زیادہ مستند سمجھتا ہوں۔
ہمارا خاندان 2 جنوری 1951 کو جب ملیح آباد، بھارت سے ہجرت کرکے کراچی، پاکستان، پہنچا تو یہ سات افراد پر مشتمل تھا۔ میرے والد ماجد، بڑے بھائی سید محمد حنیف اخگر صاحب، ان کی بیگم صاحبہ، میری تین بہنیں، اور میں۔
میری ابتدائی تعلیم کا آغاز کراچی سے ہی ہوا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول لیاقت آباد، کراچی، سے میں نے میٹرک کیا۔ اسلامیہ کالج، کراچی سے انٹر سائنس، اور نیشنل کالج، کراچی، سے بی۔اے۔ کیا۔ اس کے بعد بوجوہ تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ 1967 ء میں حبیب بینک کے جونیئر آفیسرز کے ایک مقابلہ میں منتخب ہوگیا۔ یوں بینکنگ کے شعبہ سے منسلک ہوگیا۔ 5 برس کے عرصہ میں یونائیٹیڈ بینک میں بہتر ملازمت ملی، اور اور پھر سات، آٹھ سال بعد بہتر سے بہتر مواقع کی تلاش ریاض، سعودی عرب لے گئی۔ وہاں 1977ء سے 1992ء تک سعودی عرب کے سب سے بڑے بینک میں انٹرنل آڈیٹر کے فرائض انجام دیے۔
اور پھر، اپنے بچّوں کی بہتر تعلیم کی غرض سے ایک اور ہجرت کی، اور کینیڈا آگئے۔ تاحال کینیڈا میں ہی قیام ہے۔ لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں، اپنے اصل وطن پاکستان کے حوالہِ سے ہوں۔
پاکستان ہی میری پہچان ہے۔ قارئین کرام، اگر آپ سے اپنے عہدِ شاعری کے بارے میں کوئی بات نہ کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ سے یہ تعارف و مکالمہ نامکمّل رہ جائے گا۔ شاعری سے لگائو کی ابتداء اسکول کے زمانہِ سے ہی ہوگئی تھی۔ میں اسکول اور کالج میں اردو، انگریزی مباحثوں میں حصّہ لیا کرتا۔ اردو مُباحثوں میں اکثر و بیشتر اپنے دلائل کو مُستحکم کرنے کے لئے اچھے اور مشہور اشعار کی مدد لینا پڑتی تھی۔ شعر کو اچھے انداز میں پڑھنا یقیناً شعر موزوں کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کالج کے زمانہِ میں ہی غزل کا جو پہلا مطلع طلوع ہوا، وہ تھا: ۔۔
ترے خیال کی دنیا سجا رہا ہوں میں بس ایک کلی سےگلستاں بنارہاہوں میں باقاعدہ شاعری کی ابتداء سعودی عرب میں قیام کے دوران ہوئی۔ وہاں ایک ادبی ادارہ تھا “بزمِ فانوس”۔ میں بھی اس سے ایک طویل عرصہ تک منسلک رہا۔ ۔2001ء میں، میں نے بزم فانوس کی کینیڈا میں تشکیلِ نو کی۔ جہاں13 اپریل 2001ء کو ایک عظیم الشان مشاعرہ بزمِ فانوس کینیڈا کے زیرِ اہتمام منعقد کیا۔ اس موقع پر ایک انتہائی دیدہ زیب مُجلّہ بھی شائع کیا گیا۔ یہ مُجلّہ اب بھی تسلسل سے شائع کیا جارہا ہے۔ انشا اللہ، بزم فانوس کینیڈا آئندہ بھی بہتر سے بہتر مشاعرے منعقد، اور شمالی امریکہ میں اردو کی ترویج و ترقّی میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
یہ عرض کرتا چلوں، میں نے شاعری میں کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی۔ یعنی باقاعدہ اصلاح کے لیے اپنا کلام آج تک کسی کے سامنے نہیں رکھا۔ میں نے ہمیشہ مطالعہ کو سیکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا، اور اپنی اغلاط کو درست کرتا رہتا ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ شعر موزوں کرنے کے ہنر سے کسی حد تک واقفیت ہے۔ اور مزید سیکھنے کے لیے ذہن و دل کے دریچے ہمہ وقت وا رکھتا ہوں۔
میری شادی 1971ء میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ثروت کی شکل میں مجھے انتہائی حسین اور نایاب تحفہ سے نواز دیا۔ اس امر کا حتمی ادراک مجھے شادی کے 28 برس بعد اپنی علالت کے دوران ہوا۔ جب میں نے ثروت کی محبّت میں محسوس کیا کہ ان کے لیے شاید سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہوگی کہ مجھے ان کی زندگی مل جائے۔ ایسی مثالی، باوفا، اور انتہائی محبّت کرنے والی شریک حیات اللہ تعالٰی جس کو عطا فرمادیں وہ اپنی تمام دیگر محرومیوں کو بھلا کر یہ کہتا ہے کہ “یا اللہ، تجھ سے مجھے کوئی بھی، شکوہ نہیں، شکوہ نہیں۔” ۔ No Complaints! اللہ تعالٰی کا مزید کرم یہ ہوا کہ اس باریء تعالٰی نے دو بیٹیاں، اور چار بیٹے عطا فرمائے۔ ان بچّوں کے بارے میں مختصراً یہ ہی کہہ سکتا ہوں کہ اللہ ایسی نیک،اور فرمانبردار اولاد سب کو عطا فرمائے۔ آمین۔
۔ 1991 ء کے وسط میں ایک موذی مرض کینسر کا انکشاف ہوا۔ دنیا کے بہترین اور تجربہ کار ڈاکٹروں نے کھلے الفاظ میں میری صحت یابی اور زندگی سے مایوسی کا اظہار کردیا۔ اور ایک سال کے اندر، اندر، میرے سانحہ ارتحال کی پیشن گوئی بھی کردی۔ لیکن یہ اللہ تعالٰی کا میری نسبت سے،ایک عظیم معجزہ ہے، اور اس خالقِ مطلق کا مجھ پر انتہائی فضل و کرم ہے کہ میں آپ سب احباب کی دعائوں سے ابھی تک بحمداللہ تعالٰی بقیدِ حیات ہوں۔ اور آپ سب کی دعائوں کا ہمیشہ طالب و محتاج رہوں گا۔
۔ 1987 ء میں میری بیگم ثروت کچھ ایسی علیل ہوگئی تھیں کہ ڈاکٹروں نے مجھے بہت ڈرا دیا ۔ کبھی کبھی یہ خوف مجھے دہشت زدہ سا کردیتا تھا، اور میں یہاں تک سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ اگر ثروت کی رفاقت مجھے مُیسّر نہ رہی تو میں کیا کروں گا، کیسے زندہ رہ سکوں گا۔ ان ہی دنوں ایک نظم تخلیق ہوئی، اس کا عنوان ہے “ اے صنم تیرے بغیر” ۔ یہ نظم اس ملٹی میڈیا ویب کتاب میں بھی موجود ہے۔ آپ سے میری درخواست ہے کہ اس نظم کو ضرور پڑھیں، کہ اس کا ایک ایک لفظ خونِ دل سے رقم ہے۔
میری سنجیدہ علالت کے پیشِ نظرکچھ دوستوں کا بھی تقاضہ تھا، اور میری بیگم ثروت خاتون، میری بچّیاں اور بچّے، سب ہی چاہتے تھے کہ اس کتاب کی اشاعت میری زندگی میں ہی ہوجائے۔ اور سچ پوچھیے تو میری اپنی بھی اب یہ ہی خواہش تھی۔
اس کتاب کی اشاعت کے سلسلہِ میں بعض شعری خامیوں کی تصحیح، اور کتابت کی "قراءتی جانچ پڑتال" میں محترمی و مُکرّمی جناب محسن بھوپالی صاحب نے میری قدم قدم پر مدد فرمائی۔ اس کے لیے میں ان کا تا حیات احسان مند رہوں گا۔
میں جناب ڈاکٹر فرمان فتح پوری، جناب راغب مراد آبادی، جناب مشفق خواجہ، جناب ڈاکٹر فہیم اعظمی، اور جناب سحر انصاری کا بھی تہہ دل سے ممنون ہوں، جنہوں نے اپنی اپنی بیش بہا آراء سے اس کتاب کی زینت میں اضافہ فرمایا۔ اور اس کتاب کو کششِ مطالعہ عطا فرمائی۔
میں جناب محسن بھوپالی صاحب کا مزید شکر گزار ہوں، کہ انہوں نے اس کتاب کا دیباچہ تحریر فرما کر اس کتاب کو لائقِ مطالعہ کردیا۔
آخر میں، میں آپ سے ملتمس ہوں کہ میری شعری کاوشوں کے بارے میں اپنی قیمتی آراء سے ضرور مطلع فرمائیے گا۔ اس کے لیے آپ اس ملٹی میڈیاویب کتاب کے ہر صفحہ پر موجود 'کمینٹس” کی سہولت استعمال کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر بھی اہم ہے کہ "جستجو میڈیا"، کراچی، پاکستان، نے از خود دلچسپی لے کر اس ویب کتاب کا ایک دل چسپ اورانوکھا تصوّر تجویز کیا، اور میری رضامندی کے بعد گوگل اور بزم فانوس کے تعاون سے شبانہ روز کی محنت سے اسے انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا بھر کے محبّانِ اردو اور محققین کے لیے -- ویب سرچ انجن کی آسانیوں کے ساتھ-- ایک پُرکشش تخلیقی انداز میں آپ کے ذوقِ مطالعہ کی خدمت میں پیش کردیا۔آپ کی اس ملٹی میڈیا ویب کتاب کے پڑھنے، سننے،اور دیکھنے کے لیے وقت نکالنے،اور اس پر اپنی قیمتی آراء دینے کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ سب کو اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے ہمیشہ سرفراز رکھے۔ آپ کا، سیّد محمّد مُنیف اشعر اس مکالمہ کے نستعلیق ورژن کے مطالعہ کے لیے یہاں کلک کیجیے اے صنم تیرے بغیر" پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے" رہگزار غزل کا "سلام و کلام" پڑھنے کے لیے کلک کیجیے |
کلیات اشعر - دیوان تلخ و شیریں میں خوش آمدید
Wednesday, April 8, 2009
Salaam wa Kalaam سلام و کلام
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment